Thursday, March 19, 2009

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

دادبیداد: ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

مٹی آدم کھاتی ہے

”مٹی آدم کھاتی ہے “ ایک ناول کا نام ہے ۔ محمد حمید شاہد کی لکھی ہوئی یہ علامتی کہانی با لکل نئے طرز کی کہانی ہے اس میں کہانی پن ہے مگر کہانی کا روایتی انداز نہیں ہے تجسس ، ڈرامہ اور وحدت تاثر ہے لیکن کہانی والا ربط نہیں ہے ۔ واقعات کا منطقی بہاﺅ نہیں ہے ۔ اور یہ مصنف کی شعوری کو شش ہے کہ وہ کہانی کو کہانی کے انداز میں بیان نہ کرے کہانی آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی کہانی کے گرد گھومتی ہے ۔ نسل انسانی میں پہلا قتل قابیل نے کیا تھا ۔ قتل کے بعد لاش کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ سمجھ میں نہیں آیا تو دو کوے نمودار ہوئے ایک کوے نے دوسرے کو چونج مار مار کر قتل کیا ، پھر اس نے زمین میں کھود کھود کر خندق سا بنالی اور مرے ہوئے کوے کو اس میں دبا کر اوپر مٹی ڈال دی۔اُس کی دیکھادیکھی قابیل نے بھی اپنے بھائی کے لاش کو ٹھکانے لگادیا ۔ اس وقت سے ”مٹی آدم کھاتی ہے “ اور کھاتی آئی ہے ۔ محمد حمید شاہد کی کہانی کا پس منظر سقوط ڈھاکہ سے لیا گیا ہے ۔ کہانی کا مرکز ی کردار میجر سلیم چٹا گانگ سے فرار ہوکر برما پہنچتا ہے ۔ وہاں سے گرفتار ہوکر بھارت میں قید ہوتا ہے ۔ قید سے واپس آکر منیبہ کی یاد میں اپنا ذ ہنی توازن کھو بیٹھتا ہے ، اور ” مٹی “ کا لفظ ایک استعارہ بن کر اسکی زبان پر چڑھ جاتا ہے ۔ مگر ناول کی کہانی میجر سلیم یا منیبہ سے شروع نہیں ہوتی ۔ نہ ان پر ختم ہوتی ہے عجیب کہانی ہے ۔ مصنف خود کہتا ہے کہ عجیب کہانی ہے ۔جو کہانی ہے بھی اور نہیں بھی۔سبز حویلی،بڑے خان جی،چھوٹے خان جی،گھوڑا،اصطبل،مٹی،جسم،بھائی،باپ اس کے چند نمایاں استعارے ہیں۔بڑی بڑی علامتیں ہیں۔کہانی ایک جریدے کے دفتر میں مدیر کی میز پر شروع ہوتی ہے۔8اکتوبر 2005کے زلزلے میں” سبز حویلی“کے کھنڈرات سے کاغذوں کا پلندہ برآمد ہوتا ہے۔اور یہ پلندہ اشاعت کے لئے مدیر کی میز تک آپہنچتا ہے۔اس پلندے میں بے ربط سی کہانی ہے۔یہ میجر سلیم کی کہانی ہے۔میجر سلیم اپنا ذہنی توازن کھونے کے بعد اس کہانی کو بیان کرتا ہے اور ایک بے نام کردار اسے لکھتا ہے یہ کہانی کا کردار ہے بھی اور نہیں بھی،یہ کردار کہانی کا حصہ ہوتے ہوئے کہانی میں شامل نہیں ہے۔خود کہتا ہے میں لکھنے پر مامور ہوں۔یہ ” سبز حویلی“ کی کہانی ہے4ابواب اور23ذیلی عنوانات پر مبنی یہ کہانی 122صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اس میں8اکتوبر2005کے زلزلے کا کرب بھی نمایاں ہے۔16دسمبر1971کی ” قیامت صغریٰ“ کا دور بھی صاف نظر آتا ہے۔درمیان میں بڑے خان جی ،چھوٹے خان جی،اصطبل،گھوڑے وغیرہ کہانی میں رنگ بھرتے ہوئے ملتے ہیں۔معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی نے کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے
” محمد حمید شاہد اپنے افسانوں میں ایک نہایت ذی ہوش اور حساس قصہ گو معلوم ہوتے ہیں۔بظاہر پیچیدگی کے باوجود ان کے بیانیہ میں یہ وصف ہے کہ ہم قصہ گو سے دور نہیں ہوتے۔حالاں کہ جدید افسانے میں افسانہ نگار بالکل تنہا اپنی بات کہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔اسی وجہ سے جدید افسانہ نگار اپنے قاری کے لئے کتابی وجود تو رکھتا ہے لیکن زندہ وجود نہیں رکھتا۔محمد حمید شاہد اس مخمصے سے نکلنا چاہتے ہیں۔اور شاید اس لئے وہ اپنے بیاینے میں قصہ گوئی یاکسی واقع شدہ بات کے بارے میں ہمیں مطلع کرنے کا انداز جگہ جگہ اختیار کرتے ہیں“
زیر نظر ناول کو شمس الرحمن فاروقی کی رائے کی روشنی میں پڑھا جائے تو جگہ جگہ قصہ گو،قصے کو چھوڑ کر قاری کے پاس آتا ہے۔قاری کے دل کو جھنجھوڑتا ہے۔اور اُسے انگلی سے پکڑ کر کہانی کے ایک نئے موڑ پر لاکر کھڑا کردیتا ہے۔جہاں قاری خود کو کہانی کا کردار سمجھنے لگتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ یہ تو میری کہانی ہے یوں اس کہانی کے دو نہیں بلکہ تین راوی ہیں ایک راوی میجر سلیم ہے،دوسرا نام لکھاری اور تیسرا مدیر یعنی مصنف۔ناولٹ میں بڑے خان جی کا کردار سبز حویلی یعنی پاکستان کے جاگیردار اور وڈیرے کا کردار ہے جو اپنے بھائی بہنوں ،بیوی بچوں کو گھوڑوں کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتا۔انسان کا قتل اس کے لئے محض کھیل اور تماشے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔اُس کا اصیل گھوڑاسنہر یا اس کو بہت پسند ہے۔مگر جب اُس کی ٹانگ زخمی ہوتی ہے ۔تو بڑے خان جی دونالی بندوق لیکر آتے ہیں۔اور گھوڑے کو گولی مار دینے کے بعد دوسرے راوی سے کہتے ہیں۔ اب یہ کام کا نہیں رہا تھا۔ جو کام کا نہیں رہتا وہ کہیں کا نہیں رہتا“ ذرا سوچئے1971سے اب تک غیر ملکی ایجنسیوں نے جن گھوڑوں سے کام لیا۔کام کے وقت سینے سے لگایا۔کام نکلنے کے بعد گولی ماردی۔آج کے عالمی وڈیرے کی ذہنیت اور سبز حویلی کے بڑے خان جی کی ذہنیت میں کوئی فرق نہیں۔” مدیر کا نوٹ“ کے زیر عنوان مصنف لکھتا ہے” یہ ایک ایسی عجیب وغریب کہانی ہے جو چھپنے کے لئے نہیں لکھی گئی تھی۔اور شاید کبھی منظر عام پر نہ آتی اگر آٹھ اکتوبر کا شدید بھونچال نہ آیا ہوتا۔جس نے بہت وسیع علاقے میں تباہی پھیلائی تھی۔ قیامت کے ان دنوں میں ہمارے نمائندے تباہ شدہ علاقوں سے جو روح فرسا واقعات لکھ لکھ کر بھیجتے رہے۔وہ ہمارا جریدہ آپ تک پہنچاتا رہا۔اسی عرصے میں اس تباہ ہونے والے علاقے سے ہمارے نمائندوں میں سے ایک نے کاغذوں کا ایک پلندہ بھیجا تھا“آگے لکھتے ہیں” اس مسودے کے ساتھ ایک چٹ بھی موصول ہوئی تھی اس چٹ پر نمائندے نے لکھا تھا کہ اسے یہ کاغذات ایک بہت بڑی تباہ شدہ حویلی کے داہنی سمت والے حصے کے ملبے سے ایک ایسی لاش کے پاس سے ملے تھے۔جو ایک بھاری شہتیر کے نیچے دبی ہوئی تھی۔“ سبز حویلی اور بھونچال اس کہانی کے اہم استعارے ہیں۔دوسرا راوی جو میجر سلیم کی بے ربط کہانی لکھنے پر مامور ہے۔بچپن میں اپنے باپ کے ہمراہ بڑے خان جی کے اصطبل میں گھوڑوں کی سائیسی پر لگ گیا۔سنہریا اس اصطبل کا سب سے اصیل گھوڑا تھا۔جب میجر سلیم پہلی بار کہانی میں داخل ہوتا ہے تو وہ کپتان ہے۔اور اصطبل کے اسی اصیل گھوڑے سنہریا پر سواری کرتا ہے اس واقعے کو راوی یوں بیان کرتا ہے۔” انہی گھوڑوں میں سے ایک پر جسے ہم سنہریا کہتے تھے،اس آدمی نے سواری بھی کی تھی۔تب اس آدمی کے جثے پر کلف لگی خاکی وردی تھی۔جو سورج کی کرنوں کو لوٹا کر سنہری ہوجانے والے گھوڑے کی جلد جیسی لگ رہی تھی۔وہ سیاہ پالش سے چمکتا بھاری بوٹ رکاب میں اڑس کر پلک جھپکنے میں سنہرےے پر سوار ہوگیا تھا“۔کہانی کا نکتہ عروج وہ ہے جسے فرار ہوتے ہوئے کا دلچسپ عنوان دیا گیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ کپٹن سلیم کو ترقی مل گئی ہے وہ اب میجر بن کر مشرقی پاکستان میں ڈیوٹی دے رہا ہے۔ وہاں میجر جلیل بنگالی افسر ہے۔ایسٹرن کمانڈ میں اس کا ساتھی ہے۔پی ایم اے کاکول میں اُس کا کورس میٹ تھا۔ایسٹرن کمانڈ میں ڈیوٹی سنبھالنے کے بعد میجر جلیل اور اس کی بیوی منیبہ میجر سلیم کو خوب سیر کراتے ہیں۔چٹا گانک ،کومیلہ اور کسکسس بازار لے جاتے ہیں۔معاشی محرومیوں کی داستان سناتے ہیں۔محرومیوں کے ثبوت دکھاتے ہیں۔مکتی باہنی کے طریقہ واردات سے آگاہ کرتے ہیں۔میجر جلیل خود مکتی باہنی سے ملا ہوا ہے۔لیکن اُس کی بیوی اپنے شوہر سے بھی نفرت کرتی ہے۔مکتی باہنی سے بھی نفرت کرتی ہے۔کیونکہ مکتی باہنی والوں نے اُس کے باپ کو قتل کیا۔وہ پاکستان کا حامی سمجھا جاتا تھا۔پھر اُس کی ماں کو بھی بیدردی سے قتل کیا۔فرار ہونے کا قصہ بھی عجیب ہے۔میجر سلیم فرار ہوتے ہوئے میجر جلیل کے گھر آتا ہے۔وہ منیبہ کو الوداع کہنا چاہتا ہے۔لیکن منیبہ اُسکو گھر لے جاتی ہے۔وہ کہتی ہے۔میجر جلیل مکتی باہنی والوں کے ہمراہ مشن پر گیا ہوا ہے۔باتوں باتوں میں منیبہ بھی میجر سلیم کے ساتھ فرار ہونے کا منصوبہ بناتی ہے۔زیوارت پہن کر سٹیمر تک آتی ہے۔سٹیمر پر سوار ہونے سے پہلے دوگولیاں آتی ہے۔میجر سلیم زخمی حالت میں سٹیمر پر سوار ہوجاتا ہے۔مبینہ کو لگنے والی گولی جان لیوا ثابت ہوتی ہے اور اس کی لاش پانی کی لہروں کی نذر ہوجاتی ہے۔
” مٹی آدم کھاتی ہے“ ایک ایسی کتاب ہے۔جو چیستان کے اندر چیستان ہے یہ جادوگر کے صندوق کی طرح ہے جسکو آپ کھولیں تو اندر سے دوسرا صندوق برآمد ہوتا ہے،اُسے کھولیں تو ایک اور صندوق برآمد ہوتا ہے۔پاکستان کی تاریخ کو ناولٹ میں اسی خوبی اور خوبصورتی کے ساتھ کسی نے محفوظ نہیںکیا۔روزنامہ آج کو یہ اعزا حاصل ہے کہ محمد حمید شاہد نے روزنامہ آج کے لئے کئی ادبی کالم بھی لکھے ۔
کتاب کی قیمت150روپے ہے اور یہ اکادمی بازیافت کتاب مارکیٹ اردو بازار کراچی میں دستیاب ہے۔
آج 25.07.2007/

No comments:

Post a Comment