Tuesday, March 17, 2009

منشایاد

منشایاد
مٹّی آدم کھاتی ہے: نئی طرز کا چست ناول

محمد حمید شاہد کی اتنی ادبی جہات ہیں کہ اس پر ” محمدحمیدشاہد کی تصانیف“ اور”محمد حمید شاہد کی ادبی جہات“ کے نام سے بالترتیب یونیورسٹی کی سطح پر کام ہوچکا اور ایک کتاب چھپ چکی ہے ۔ تاہم وہ بنیادی طور پرافسانہ نگارہیںاوران کے ا فسانوں کے اب تک تین بھرپور مجموعے شائع ہوچکے ہیںجو اہل ِ نقدو نظر سے خراج ِ قبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ نئے اردو افسانے کی تیسری نسل میںمحمد حمید شاہد کانام صف ِ اول کے چند اہم افسانہ نگاروں میں شامل ہے۔
”مٹی آدم کھاتی ہے“ان کا پہلا ناول ہے۔ جو نہ صرف موضوع اورفکر کے حوالے سے بہت اہم ہے بلکہ یہ اسلوب کے لحاظ سے بھی ایک نیا اور منفر دتجربہ ہے ۔اگرچہ وہ ناول لکھتے ہوئے خود کو افسا نوی تکنیک سے پوری طرح الگ نہیں کرسکے بلکہ شاید اردو کا کوئی بھی اہم افسانہ نگار( سوائے قراةالعین حیدر ) نہیںکرسکا۔ اور اس میں حرج بھی کیا ہے ۔ لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ وہ طویل مختصر افسا نہ کی حدود کوعبورکر نے میں کامیاب ہوگئے ۔
مصنف کی طرح اس کے ناول”مٹی آدم کھاتی ہے‘ ‘ کی بھی اتنی بہت سی پر تیں ہیں کہ اگر مصنف چاہتا توان پرت درپرت واقعات اورکرداروں کی گرہیں کھولتے کھولتے اسے آسانی سے پانچ چھ سو صفحات پر پھیلا سکتا تھا ۔جب کہ آج کل طویل ناول لکھنے کا فیشن بھی ہے مگر اس نے ہنرمندا نہ دانشمندی کاثبوت دیتے ہوئے ایجازواختصار سے کام لیا اور اس خطرے سے بھی محفوظ رہا جو افسانہ نگاروںکو ناول جیسی طویل تحریر لکھتے وقت اکثر درپیش ہوتا ہے ۔ عام طورپرافسانہ نگار فن کے سوئمنگ پول میںتیرنے کا عادی ہوتا ہے ‘ ناول کا سمندر عبور کرناپڑے تو اس کاسانس جلد ہی پھول جاتا ہے۔ زبان وبیان پر ہر جگہ پوری گرفت نہ رہ سکنے کے سبب بیانیہ توانا اورہموار نہیں رہتا ۔ دوسرے اسباب کے علاوہ ہمارے افسانہ نگاروں کے ناول سے اجتناب کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
گل باز خان کے دو بیٹے تھے ۔خان دلاورخان اور شہروزخان۔ یہ ناول انہی دو بھائیوںکی کہانی ہے اوراپنی ایک علامتی اور استعاراتی سطح بھی رکھتی ہے۔ یوں تو اس میں حقیقی مشرقی پاکستان مع اپنے سقوط اوراس پرخیال انگیزاورعبرت ناک تبصروں کے پوری شدت سے موجود ہے مگر یہ دونوں بھائی بھی اپنے حقیقی وجود کے ساتھ ساتھ ا یک سطح پر مغربی اور مشرقی پاکستان کے استعارے بن جاتے ہیں ۔بڑا بھائی روایتی جاگیردار ہے۔جابر‘متکبر‘ اور سخت مزاج ۔ وہ جائداداور حویلی پر ہی نہیں ہر چیز پر قابض ہوجاتا ہے ۔یہاں مجھے کسی دانشور کی بات یاد آرہی ہے کہ مشرقی پاکستان سے دانستہ اورساز ش کے تحت اس لیے جان چھڑائی گئی تھی (e (Delebrate Debacklکہ بنگالی عوام کا مزاج جمہوریت پسند ہے اورفوجی تسلط اور جاگیر داری کوپسند نہیںکرتا ۔ یوں بھی ہمارے جو لچھن ہیں ان کے ساتھ ہم خود نہیں چل پارہے تو وہ کب تک چل سکتے تھے۔
کردارنگاری کسی ناول میں بہت اہمیت رکھتی ہے ۔اس ناول میں بھی یہ خوبی موجود ہے ۔خاص طورپربڑے بھائی شہروز ‘داماد کیپٹن سلیم ،بنگالی عورت منیبہ ‘ کہانی بیان کرنے والے بے نام کرداراوراس کے ما ں باپ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔بڑے بھائی خان جی کے کردار کی تشکیل و تعمیر توناول نگار نے بہت ہی عمدگی سے کی ہے۔ وہ چھوٹے بھائی کا حصہ بھی جوایک نرم دل ‘حسن پرست اور فنکارانہ مزاج کاآدمی ہے‘غصب کر لیتا ہے۔ وہ اس قدر سفاک ہے کہ باپ کے مرنے پر چھوٹے بھائی کو اس کا منھ تک نہیں دیکھنے دیتا۔ مطلق العنان بادشاہت اورجاگیرداری میں زمین خونی رشتوں پرفوقیت رکھتی ہے۔اسی لیے کہاگیاکہ مٹی آدم کھاتی ہے ۔ زمین کے لئے سگے بھائیوں کومروا دیاجاتاہے ۔ بقول شاعر’ راج پیاراراجیاں ویر دپّرآرے‘چنانچہ خان جی چھوٹے بھائی شہروز کوشہرکی سڑک پرحادثے میں مروادیتے ہیںاورحادثے کی خبر کواس کے بیٹے اوردیگرلوگوں تک رسائی سے روکنے کی خاطر اسے اخبار کے مقامی ایڈیشن تک محدود کرنے کاانتظام بھی کرلیتے ہیں۔زراورزمین پرست نظام میں انسانوں پر بیلوں‘گھوڑوں اوردیگرپالتو جانوروں کوبرتری حاصل ہوتی ہے۔اسی لیے کہانی بیان کرنے والے کے باپ پرچتکبرے بیل کوفوقیت حاصل تھی۔
اس ناول میں شاید روایتی ہیرو‘ ہیروئین اورولن تونہ ہوں اورپورے ناول اورماحول پرخان جی چھائے ہوئے ہیں مگر پڑھنے والے کی تمام تر ہمدردیاں چھوٹے بھائی کے بیٹے کیپٹن سلیم کے ساتھ جڑ جاتی ہیں جسے متروک آدمی‘ ناواجب آدمی‘ اور غیرمربوط آدمی جیسے ناموں سے بھی یاد کیاگیااور جو مشرقی پاکستان اوراپنی محبت کے سقوط کے بعد دیوانگی کاشکار ہوجاتاہے ۔ہیروئین کے لیے منیبہ سے بہتر کون ہے جو اپنے محبوب کے لیے اپناسب کچھ‘ پہلاشوہر‘ گھر‘ وطن کی مٹی ہی نہیںاپنی جان تک قربان کردیتی ہے۔بعض کردار تھوڑی دیر کے لیے آئے مگراپنی شناخت چھوڑ گئے جیسے میجرجلیل‘ نصیب اللہ‘ اس کی متروکہ بیوی اورخوبرو بیٹی کے علاوہ مولوی دوزخی وغیرہ۔زرجان اورخرم بھی ایسے ہی کردار ہیںجواپنی جھلک دکھاکرغائب ہوجاتے ہیںمگران کی اپنی اپنی انفرادیت ہے۔
اس کہانی کے کئی راوی ہیں ۔مصنف کا کہنا ہے کہ اس کے دور اوی ہیں۔ ایک کہانی کہنے والا اور دوسرا اسے قلمبند کرنے والا۔کہانی قلمبندکرنے والا درمیان میںاپنے کومنٹس ہی نہیںدیتابلکہ اپنی کہانی شروع کردیتاہے مگر یہ کہانی اندرسے مرکزی کرداروںاورپلاٹ سے جڑی ہوئی ہے اس لیے کہیں بھی دخل درمعقولات کی صورت اختیار نہیں کرتی بلکہ تاثرمیں گہرائی اور کہیں کہیں ڈرامائی رنگ بھردیتی ہے۔مصنف نے یہ ناول لکھتے ہوئے سارے حواس اورحسیات سے کام لیا اور بیان کی مختلف تکنیکیں استعمال کیں۔ پہلے دوراویوں کے علاوہ اس میں ایک مدیرکے بھی کومنٹس شامل ہیںجس کے پاس زلزلے کے ملبے سے نکل کر یہ کہانی پہنچی اورجس کاکہناہے کہ یہ چھپنے کے لیے نہیں لکھی گئی تھی اور اسے قابل ِ اشاعت بنانے کے لیے رفو کابہت ساکام کرناپڑا۔اسی کی وساطت سے ہمیں اس کہانی کے وطن( Locale)کاپتہ بھی ملتاہے۔پھرایک چوتھاراوی ہے یعنی ان سب کو وجود میں لانے والاخود ناول نگارجو کہانی کی گیند کو ایک زور دارہٹ لگا کرخودپس پردہ چلا جاتا بلکہ تماشائیوں میںجاکر بیٹھ جاتا ہے اورگیندکوآگے اور مختلف کرداروں کوکرکٹ فیلڈروں کی طرح اس کے پیچھے بھا گتے دیکھتا رہتا ہے ۔ گیند باو¿نڈری کے باہر چلی جاتی ہے اور وہ زور زور سے تالیاں بجاتا ہے۔
زبان و بیان کی خوبصورتی اورتشبیہوں کی ندرت اس ناول کی ایک اور بڑی خوبی ہے۔ یہ نہ صرف بیانیے کاحسن بڑھاتی ہیںبلکہ اس میں تہذیبی اورثقافتی رچاو¿ پیداکرتی ہیں۔مصنف نے ان سے کسی صورت حال یاکردار کی محاکاتی تصویر کشی کاکام بھی لیاہے ۔ چندمثالیں ملاحظہ کیجئے:
٭”جب بازار میں دودھ ملتاہواورجب چاہوتب ملتاہوتوگھرمیںایسی بھینس پالنے کاکیافائدہ جودودھ کم دے اورپونچھ زیادہ جھاڑتی ہو“
٭”اسے یوں لگانصیب اللہ ہنس نہیں رہاتھاایک ایسے جوہڑ میں تیرنے کی کوشش کررہاتھاجس کی تلچھٹ کاکیچڑ ساراپانی پی گیاتھا“
٭اس کہانی کومرتب کرتے ہوئے مجھے یوں لگنے لگاہے کہ جیسے میرابدن چرخی جیساہے جس پر بہت سی رسی لپیٹی ہوئی ہے یہ رسی کھینچ کھینچ کر اتنی شدت سے لپیٹی گئی ہے کہ میری پسلیاں دہری ہوگئی ہیں۔
جس طرح کرداروں کے ناموں سے کردارنگاری میں مدد ملتی ہے اورمحض نام سن کرہی کردار کاحلیہ اورشباہت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اسی طر ح مقامی زبان کے بعض الفاظ کاخوبصورت استعمال بھی ماحول سازی میں بہت ممدثابت ہوتاہے جیسے چاہنگیں‘ چتکبرا بیل‘ گھوڑوں کی مختلف اقسام(اپنی سورگ میںسو¿رکہانی کی بکریوں کی طرح ) گندیکہ‘ مانکیا‘امرینا‘بہوپڑیا ‘تھارو بریڈ اوررل گڈیعنی مخلوط نسل وغیرہ۔ لیکن ایک بات کی سمجھ نہیں آئی انہوں نے بوکا کوچرمی ڈول کیوں کہا؟ اس کے لیے بوکاکالفظ کیوں استعمال نہیں کیا؟۔کیاوہ اپنے دیباچہ نگارشمس الرحمٰن فاروقی سے ڈرگئے؟
ناول کی کہانی جسے غیر مربوط یادداشتوں کی کہانی بھی کہاگیا‘ناک کی سیدھ نہیں چلتی ۔کئی پر پیچ راستوں سے گزرتی ہے۔ اس کی راہ میں ٹیلے اور گھاٹیاں‘پہاڑ اوروادیاں ۔ ریت اورپانی ‘دوب اوردلدل سبھی کچھ آتاہے ۔ اس میں بعض اندھے موڑ بھی آتے ہیں اوراگرچہ اس میں تین چار کہانیاں موجود ہیں مگر مشرقی پاکستان کی کہانی کومرکز ی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے جواگرچہ نہایت اختصارکے ساتھ بیان ہوئی مگرناول نگارنے اصل اوراہم باتوں اورنتائج کوتوجہ سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔مثلاًجب جلیل چٹاگانگ کلب میں کھاناکھاتے اورسیاسی بحث کرتے ہوئے اپنے غصے پرقابوپالیتاہے تو کہتاہے کہ جب اِدھر کے لوگوں کوالیکشن جیتنے کے بعد بھی اقتدارسے صرف اس لیے محروم رکھاجائے گاکہ ہم بنگالی ہیںتوبنگالیوں کوباغی ہونے سے کون روک سکے گا۔اورتھوڑی دیر بعد جب اسے یقین ہوجاتاہے کہ سب اسے دیکھ رہے ہیں تووہ چپاتی کوچیرکراس کے دو حصے کردیتا ہے۔
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش میں تبدیل ہوجانے اور برما کے راستے وہاںسے فرار کے بعد کہانی اپنے پہلے ٹھکانے پرواپس آجاتی اور ایک ڈرامائی موڑ مڑتی ہے ۔اس مرحلے پر ایک نیاانکشاف ہوتاہے ۔بیان کرنے والا کہانی کاہی نہیں‘ خان جی کے خاندان کابھی حصہ بن جاتاہے۔یہی وہ افسانوی تکنیک ہے جس کامیںنے شروع میں ذکرکیا ہے۔ شروع ہی سے لکھنے والے کواس بات کاشدت سے احساس رہا کہ اسے ایک چست اورنئی طرز کی ایسی کہانی لکھناہے جس میں واقعہ احساس بن کرہواہوجاتاہو اورہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس میں پوری طرح کامیاب ہوگیا۔
اس کتاب کے نام اور انتساب میںبھی فنکارانہ سلیقہ دکھائی دیتا ہے۔انتساب میںاگرکتاب کے عنوان کااضافہ کرلیاجائے تو ناول کی پوری تھیم سمجھ میں آجاتی ہے۔ ”آدمی کے نام ‘جوزمین کی محبت میںدیوانہ ہوگیاہے اور زمین یعنی مٹی آدم کھاتی ہے“
٭٭٭
(۹۱ مارچ ۷۰۰۲ءکو اکادمی ادبیات پاکستان‘اسلام آباد کے زیرِ اہتمام کتاب کی تقریبِ اجرا میں پڑھاگیا)


No comments:

Post a Comment