Thursday, March 19, 2009

علی محمد فرشی

علی محمد فرشی

مٹی اور آدمی کی ڈائکاٹمی

’نادمی‘ کی بہ یک وقت کئی زندانوں میںکٹتی ہوئی زندگی ہی اس عہد کا عذاب ہے۔آج کا آدمی مینڈکوں اور چوہوں کے عذاب سے نہیںڈرتا، کوڑھ بھی اس کے لیے لاعلاج مرض نہیں رہا،چیچک جیسی موذی بیماریوںسے بھی زمین پاک ہو گئی ہے۔ سونامی نما بھیانک طوفانوں کو بھی وہ زمینی تغیرات کانتیجہ سمجھ کر قبول کر لیتا ہے۔یوں کہیے کہ خارجی خطرات سے نمٹ لینے کی صلاحیت حاصل کر لینے کے بعد، جب اس کے ہنسنے کھیلنے کے دن آئے تو،اصل مصیبت نازل ہوگئی۔کہتے ہیںکہ ہر شے بہ وقتِ پیدائش چھوٹی ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ اُس کی جسامت میںاضافہ ہوتا رہتاہے،سوائے ایک شے کے جو پیدائش کے وقت بہت بڑی ہوتی ہے لیکن مرور ِ ایام کے ساتھ اس کا وجود مختصر ہوتارہتاہے اور با لآخر معدوم ہو جاتا ہے ، اس عجوبہ ِعالم کا نام ’مصیبت ‘ ہے ۔آفرین !اس عہد پر جس نے اس خیال کو بھی،عملاً، باطل ثابت کر دکھایاکہ ہر پل اس دیو ہیکل کی ہیبت ناک جسامت میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
ارتکاز سے محروم اور مستقبل سے مایوس ،اِس ’طلسمِ ہزار شکل‘ کے سامنے گھگیاتے ہوئے ،اِسی آدمی کے لیے مجھے’ نادمی‘ کی اصطلاح سوجھی ہے۔ آپ اسے ’نا آدمی ‘ کا اختصار یہ بھی کَہ سکتے ہیںاور چاہیں تو’نادم‘ کے ساتھ یائے نسبتی کا اضافہ بھی قرار دے سکتے ہیں۔وجہ ِتسمیہ کوئی بھی ہو یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ’ یہ ‘ بہ ہر حال ’وہ ‘نہیں جس کا خواب ’ اُس ‘نے دیکھاتھایوٹوپیائی انسان کا خواب!اپنے خواب کے ملبے پر کھڑے رہنا بھی اُس کا کم کارنامہ نہیں۔ کچھ دیر کے لیے رجائیت کے ہاتھوں سے آنکھیں ڈھانپ لیں تو اُس کے لیے آس امید کے کئی راستے تصور میںنکل آتے ہیں۔ ادب کسی امکان کو رد بھی نہیںکرتالیکن محض مثبت پیشین گوئیاں لکھنا بھی اُس کا منصب نہیں۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ’آدمی‘ سے ’نادمی ‘ تک کا تمام سفر،خواہ وہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، ادب کی نظروںسے اوجھل نہیںرہا۔گلگامش کی داستان سے کافکا کی کہانیوں تک اُس کی ساری اوڈیسی ادب ہی کی وساطت سے یہاں تک پہنچی ہے۔وقت کے سرکاراما میںشاید یہ کہانی کسی خطِ مستقیم پر چلنے کا چلن کبھی اختیار نہ کرے لیکن ادب کا سروکار صرف زندگی سے ہے ؛خواہ وہ ایک دن کی ہو نے کے باوجود، اعلیٰ تصور کی بہ دولت، تاریخ کے اوراق میں رفعتِانسانی کی علامت بن جائے یا ایک لمحے تک محدود ہونے کے کرب کا اظہاریہ بن کر شکایت کی شکل اختیار کر لے! یعنی کیا عجب کہ وہ ایک کرم زاد کی شکل میں کسی نظم میں نمودار ہو اور نا پائے داری کا اشاریہ بن کر وقت کی دست برد سے بچ نکلے۔”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“جیسامقولہ بھی ادبی متن بن جانے کے باوصف ہی دائمی زندگی کی لذت سے بہرہ ور ہوا ہے ورنہ کتنے ہی سورماﺅں کے کارنامے تاریخ کے پاﺅں تلے دوسرا سانس بھی نہ لے سکے۔
جس ’نادمی‘ کاذکر ابتدا میں آیاہے وہ اپنی پوری شباہت کے ساتھ ہمارے معاشرے میںدکھائی نہیںدیتا البتہ ادب میں اس کی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔بالخصوص ،ساٹھ کی دہائی میں،جب اردو ادب مغربی تحریکوں کے (ہمارے لیے نامانوس اور ناقابلِ ہضم )موضوعات سے شکم پُر ی کر رہا تھا، تو ایک’ ناآدم‘ شبیہ اس کے ہاں بھی ظاہرہو گئی تھی۔چوں کہ اس عہد کا ادب اپنی مٹی سے پوری طرح وابستہ نہیں تھا لہٰذا اس کی جڑیں دوام نہ پکڑ سکیں اور اس عہد میں لکھی گئی بیش تر تحریریں’ تجربات‘ کے حاشیے پر ہی رہ گئیںاور اصل متن خلاکا منظرنامہ پیش کرنے لگاچناں چہ مابعد ابھرنے والے ادیبوں کو کئی طرح کے ادبی و فکری مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف عالمی ادب کے زیر اثر نو بہ نوتکنیکی، اسلوبیاتی ا ور موضوعاتی سوالات کاگھنا جنگل ان کے سامنے کھڑا تھاجب کہ نو عمر ادبی اصناف کو غیر ضروری اور اضافی بار کے باعث قدم جما کر آگے بڑھنے میںدقّت پیش آرہی تھی۔دوسری جانب سیاسی اور سماجی افق پر نمودار ہونے والا”داغ داغ اجالا“ نصف النہار کو آ پہنچاتھا۔وہ مقاصد جو پاکستان بنانے والوں کے پیشِ نظر تھے فوجی آمروں، افسر شاہوںاور جاگیرداروںکے پاﺅں تلے مسلے جاچکے تھے۔ تاہم ادبی ذہن اس بات سے آگاہ تھا کہ مشرقی پاکستان کی علاحدگی ابطالِ نظریہ ¿پاکستان نہیں، سازش و ساز بازِ طبقاتِ اعلیٰ ہے جنھوں نے اپنے ذاتی مفادات ا ور طبقاتی مقاصد ِ مذمومہ کی خاطر اس سر زمین کے آدمیوں کا ایک اجتماعی سنہری خواب مٹی میںملا دیا۔”مٹی آدم کھاتی ہے“ اسی سانحے کے بعد پروان چڑھنے والی ادبی نسل اور ذہنی فصل سے منسلک ایک ایسے افسانہ نگار کا ناول ہے جس کے ہاں پاکستانی معاشرت ایک موضوع کی شکل میں جا بہ جا دکھائی دیتی ہے۔لیکن یہ پاکستانیت کسی سیاسی نعرے یا ثقافتی تقسیم کا حاصل نہیں بل کہ ایک ادبی ذہن سے خالص آدمی کے خوابوںکی شکست و ریخت کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئی ہے ۔
محمد حمید شاہد کا زیر نظر مختصر ناول”مٹی آدم کھاتی ہے“ موضوعاتی حساسیت،تکنیکی مہارت، بیانیہ ندرت اور تخلیقی اخلاص کی بہ دولت اپنی اہمیت کا احساس دلاتاہے۔ناول کی کہانی کاپائین موادتو سانحہ مشرقی کے ملبے پر مشتمل ہے لیکن ناول نگار نے اسے راست انداز میں اپنے تخلیقی تجربے سے نہیں گزرنے دیا۔ایک عرصے تک یہ موضوع اس کے لاشعور میںکلبلاتارہاتاآں کہ آٹھ اکتوبر کے بھیانک زلزلے کی تباہ کاری نے اُس کے باطن میں دبی اس کہانی کو بھی سطح پر الٹ دیا۔ ناول کی بالائی کہانی ایک صحافی کو دورافتادہ پہاڑی بستی کے ملبے سے ملتی ہے جس کے مصنف کا نام پتا آخر تک معلوم نہیںہوتا۔ اسے لوک ادب کی طرح اجتماعی ذہن کی تخلیق تو نہیں کہا جاسکتا(کیوں کہ اِس کہانی کا ایک مصنف بہ ہر حال موجود ہے خواہ اُسے خود کو ادیب قرار دینے میں لاکھ تا ¿مل رہا ہو۔)البتہ اجتماعی لاشعور کاشاخسانہ قرار دینے کے لیے ناول اپنے قاری کو کئی مقامات پرٹھوس بنیادیں فراہم کرتاہے یوں یہ لکھاری آدمی کی اس اجتماعی شناخت کا علامتی نشان بن جاتا ہے جس کی شناخت کو کسی قدرت آفت نے نہیںخود انسانی کردار نے مسخ کیا ہے۔ ” مدیر کانوٹ“ والے باب میںیہ اشارہ موجودہے کہ یہ کہانی چھپنے کے لیے نہیں لکھی گئی تھی اور شاید یہ کبھی منظر عام پر بھی نہ آتی۔گویا اس خطے میںآنے والی زمینی تباہی نے ایک موقع فراہم کیا کہ ہم اپنی تاریخ میں آنے والے ایک بھونچال کے نتیجے میں ہونے والی انسانی بربادی پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔لیکن اس مقام تک لانے اور اس نکتے تک پہنچانے کے لیے ناول نگار نے ماقبل باب میںاس پرچے کے مدیر کو راوی بناکراپنی تخلیقی مہارت کا عمدہ مظاہرہ کیا ہے جس تک یہ کہا نی اس کے نامہ نگار نے پہنچائی تھی۔یوں زلزے کی تباہ کاریوں کی تفصیلات کا بیان کہانی کا نامیاتی جز بن کر ناول کے مرکزی فریم کا حصہ بن جاتاہے۔ اسی مقام پر دو پہاڑیوں کے آپس میںمل جانے کے باعث اُن کے درمیان قائم ایک بستی کے نابود ہو جانے کا واقعہ آگے چل کر کبیری سانحے میںدو ملکوں کی فوجوں کے ٹکراﺅ میں پس جانے والے انسانوں کے المیے کو تخلیقی جواز فراہم کر گیا ہے۔ناول کے باطن میںایسے کئی پیچیدہ مگر تخلیقی انسلاکات موجود ہیںجو اچھے فن پارے کا خاصہ ہوا کرتے ہیں۔ اس مختصر ناول کو ایک نشست میں بہ سہولت پڑھا جا سکتا ہے لیکن اس کی گہری گودی میں لنگر انداز اس جہاز کے پورے وجود کا اندازہ اس وقت تک نہیںلگایا جا سکتاجب تک ہم اس کی تحتانی منازل تمام راہ داریوں سے گزر کر دوبارہ عرشے پر نہ آجائیں۔
ملبے سے ملنے والی کہانی میںجن دو بھائیوں کو موضوع بنایا گیاتھاوہ بھی اس تاریخی سانحے کے عقبی جہان میں مغربی اور مشرقی پاکستان کی انسانی علامتیں ہیں۔” چتکبرے بیل سے پست آدمی“ والے باب میں جس گل باز خان کا حوالہ آیا ہے وہ بہ ظاہرایک رحم دل شخص نظر آتا ہے مگر اپنوں کے مقابلے میں انگریز کی فرماں برداری نے اس کے خون کو گدلا دیا ہے۔اس کے اصطبل میں قسم قسم کے گھوڑے کی موجودگی اور اُن گھوڑوں میںسے ایک ایسے گھوڑے کاذکرِ خاص جوسائیس کی بو پہچانتا تھا ،بھلے اُس کی آنکھیں باندھ دی جاتیں وہ اس کے پیچھے ہی آتاتھا۔ یہ گھوڑے اوریہ گھوڑے پال بھی اپنا علامتی ماحول قائم رکھتے ہیں اور انگریزوں دورِ غلامی سے تاحال مقتدر طبقات کی نفسیاتی و سماجی زندگی کا پردہ چاک کرتے ہیں۔
یہ دونوں اسی بڑے خان کے بےٹے ہیں۔ خان دلاور خان جس کے بارے میں ابتدا ًیہ معلوم ہوتا ہے کہ بہ ظاہر اس کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے اور دوسرا سلیم کا باپ شہروز خان ہے جسے بعدا زاں بڑے بھائی نے جائیداد سے محروم کرکے مروا دیا ۔ اس کی بیوی نے اپنی واحد اولاد ،اپنی بیٹی کواپنے کمینے شوہر کے سائے اور اس کے مال سے بچا کر پالا پوسا تھا۔ جب یہ لڑکی جوان ہوئی توایک دن، کالے برقعے میں، اپنے باپ کی ایک جھلک دیکھنے کی خاطر اس کے دروازے پرپہنچتی ہے تووہ اسے ایک جسم فروش عورت سمجھتا ہے۔ محض اتنا سا اشارہ مذکورہ طبقے کی اخلاقی بد حالی کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
ناول میں زندگی کی ایک کہانی کو مختلف کرداروں میں بانٹ کر ایک سے زائد کہانیاں بنا لی گئی ہیں ۔ یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے زندگی اس آئینے کی مانند ہو گئی ہے جو مختلف کرچیوں میں بٹا ہوا ہے ۔ ناول میں یہ اہتمام موجودہے کہ مختلف کرچیوں سے منعکس ہونے والے چہروں کو ایک تخلیقی بُعد کے ذریعے جوڑ دیا گیا ہے ۔اسی تیکنیک کے ذریعہ ”نفرت کے تھوک سے پرے زندگی کا دائرہ“ کے عنوان سے جڑنے والے باب میں بتایا گیا ہے کہ ایک عورت ہے جس پر نفرت سے تھوکا جا رہا ہے۔ جو اسی نفرت کو سہ سہ کر مر جاتی ہے ۔ وہ شخص جسے اس عورت کا شوہر بنایا گیا ہے وہ بھی خان جی کے گھوڑوں کی خدمت کرتے کرتے لید کے ڈھیر پر گر کر مر جاتا ہے۔ اس ناول کے بالکل آخر میں جاکر یہ کھلتا ہے کہ بہ ظاہریوں بے بسی کی موت مرنے والے باپ کا بیٹااکلوتا بیٹا جو اس کہانی کاایک راوی بھی ہے فی الاصل اس کا بیٹا نہیں ہے۔ گل باز خان اپنے مقتول بھائی کے بیٹے سلیم کے نکاح میں اپنی بیٹی دے دیتا ہے مگر پھر بھی نامطمئن ہے ۔ یہاں تک قاری پر یہ راز افشا نہیںہوتا کہ اس کا اصل بیٹا تو کہانی کا وہ راوی ہے جس کی ماں لوگوں کی نفرت سہتے سہتے مر گئی تھی۔
ناول کی فوقانی کہانی کا یہ مختصر تعارف ہمیں تحتانی کہانی کے بارے میں بھی بہت کچھ سجھا جاتا ہے۔ وہ کہانی جسے ناول نگار نے گہرائی میں بن کر اسے ہماری پوری قومی زندگی کاپانورامابنا دیا ہے۔ سقوطِ ڈھاکا پر قلم اٹھانا بہ ذاتِ خود تخلیقی جرا ¿ت کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ اس لیے بھی کہ دھرتی سے محبت بھی ادیب کی شہ رگ میںجاں گزیں ہوتی ہے اور اس پر بسنے والے آدمیوں کی محبت سے بھی اس کا دل معمور ہوتا ہے۔ جب دھرتی اور آدمی کے درمیان سے ایک کے چناﺅ کی آزمائش سر پر آکھڑی ہو تو بڑے بڑوں کا پِتّا پانی ہو جاتا ہے۔یہ وہ کسوٹی ہے جہاں صرف کھرا لکھاری ہی خم ٹھونک کرسامنے آتاہے ۔
”مٹی آدم کھاتی ہے“کے عنوان ہی سے یہ کلید ہاتھ لگ جاتی ہے کہ پلڑا دھرتی کے حق میں نہیں جھکے گااس تناظر میںدو طرح کے غیر ادبی وتیرے وجود میں آنے کا خدشہ کچھ ایسا غلط بھی نہیںتھا۔مثلاًاگر ہم فوقانی کہانی میںآٹھ اکتوبر کے زلزلے کوبنیاد بنا کر آگے بڑھیں تو اس نتیجے تک پہنچیں گے مٹی (فطرت، قدرت) بے رحم ہے اور آدمی اس کے ہاتھوں میںکسی کھلونے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ۔ جب کہ کہانی کاپلاٹ اس مفروضے کی نفی کرتاہے۔ ایک تو پس منظر میں پیش آنے والے تمام واقعات یہی ظاہر کرتے ہیں کہ انسانی ظلم و ناانصافی کادائرہ ایسے زلزلوں کے نتیجے میں وارد ہونے والی تباہی سے کہیں بڑا ہے۔اور درحقیقت انسان ہی آدمی کادشمن ہے۔ تحتانی کہانی ،جو فی اصل مرکزے کا درجہ رکھتی ہے، میں پیش آنے والے واقعات بھی یہی عقدہ کشائی کرتے ہیںکہ انسان ہی آدمی کی جان کے درپے ہے۔اس حصے میںبنگالیوں کے سیاسی ،سماجی اور انسانی کردار کا مطالعہ جس آنکھ سے کیا گیا ہے وہ صر ف ایک ادیب ہی کو ودیعت ہو سکتی ہے۔
مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والا غیر منصفانہ سلوک کیا مغربی پاکستان کے عوام کی ایما پر ہوتارہا؟کیا بنگالیوں کے سامنے علاحدگی کے علاوہ کوئی رستہ باقی بچا تھا؟ ناول نے ان دونوں سوالوں کے جواب راست انداز میں نہیںدیے بل کہ پس منظر اور پیش منظر کی کہانیوں میںایساواقعاتی تانابانا خلق کیا ہے کہ قومی،سیاسی،سماجی،انسانی اور قدری و جبری الجھنوں کی گتھیاں خود بہ خود سلجھتی چلی جاتی ہیں۔اس سارے معاملے میں ناول نگار نے نہ حقائق سے چشم پوشی کا رویہ اختیار کیا ہے اور مصلحت کوشی کا۔ اور یہی بات اس ناول کو آدمی کی حمایت میںایک نمایاں مقام پر لا کھڑا کرتی ہے۔
کہانی کی شیرازہ بندی میںایک ایسی تکنیک استعمال کی گئی ہے جس کی بہ دولت نہ صرف کہانی کے سبھاﺅ میں چستی اور بہاﺅ میں روانی آئی ہے بل کہ اس نے ناول نگار کو مختصر جسامت کے اس ناول میں کئی سوالات اٹھانے کی سہولت فراہم کردی ہے۔ ہر جزکا عنوان قائم کرکے اس کے مطابق راوی کا فریضہ کرداروں کو سونپا گیا ہے۔ یہاں اُس ناو ل کاذکر بے محل نہ ہوگا جس کے تین ابواب حلقہ ارباب ِ ذوق اسلام آباد کی مختلف تنقیدی نشستوں میںپڑھے گئے۔ یہ تینوں اجزا تفصیل نویسی کی انتہا کو چھو گئے تھے اور ان کا اسلوب مرصع نگاری کا نمونہ بن گیاتھا۔ زیرِ نظر ناول یک سر دوسری انتہا پر کھڑا دکھائی دیتاہے۔اگرچہ ہر تخلیق اپنا اسلوب اور تکنیک اپنے ہم راہ رکھتی ہے اور اس میںکسی دوئی کو برداشت نہیںکرتی لیکن یہاں اس کے ذکر کا جواز یہ ہے کہ متنوع اسلوب اور مختلف تکنیک نے استعمال نے مجھ پر محمد حمید شاہد کی ناول نگاری کے امکانات کا ایک دریچہ وا کیا ہے۔ کیاعجب کہ کل کلاںوہ افسانے کے شہر سے ہجرت کر کے ناول کی دنیامیں ٹھکاناکر لے۔
اب آخر میں’نادمی‘ کی بابت ایک بات جس کے بغیر شاید مدعا ناآسودہ رہے: اس ناول میں آدمی اور نادمی کی جتنی صورتیں سامنے آئی ہیںان کے رگ و ریشے میں مقامیت ایک نہادی قدر کا درجہ رکھتی ہے۔ اور خیر و شر میں امتیازکرنے کے لیے صرف ادبی پیمانوںکو بہ روئے کار لایا گیاہے۔اور جبر کی ان تمام صورتوں کو مسترد کیا گیاہے جو سماجی تعصبات کے زیرِسایہ رہنے والی تحریروں میںدر آتی ہیں۔مزید یہ کہ ہر سماج کا آدمی دوسرے سماج کے آدمی سے مختلف اور ہر معاشرے کا نادمی دوسرے معاشرے کے نادمی سے الگ شناخت کا حامل ہو گا۔ کسی بھی ادیب کے لیے اپنے معاشرے میںان دونوں کی ڈائکاٹمی پر کڑی نظر ہونی چاہیے۔ یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ ”مٹی آدم کھاتی ہے“ کے لکھاری کو یہ قدرت بہ درجہ اتم ودیعت کی گئی ہے۔

سمبل راول پنڈی

No comments:

Post a Comment