Thursday, March 19, 2009

اسلم سراج الدین

نالہ گرم;آہِ سرد
محمدحمیدشاہد کے ناول ”مٹی آدم کھاتی ہے“ کے حوالے سے چند باتیں
اسلم سراج الدین

کوئی پونے چودہ اَرب برس قبل یہ کائنات اپنے فکشن سے برآمد ہوئی، تب سے یہ اپنا فکشن بُھگت رہی ہے اَور اتنے ہی برس مزید بھگتنے کے بعد یہ آخر الامر پھر فکشن ہو جائے گی۔
کائنات کے ساتھ اس کی ہر چیز بھی فکشن کے اُلجھے سلجھے دھاگوں میں زندگی کرتی ہے اَور پھر ایک روزان میں سے نکل کر عظےم فکشن کا حصہ ہو جاتی ہے۔
فِکشن سے فِکشن تک۔ انسان او رکائنات کا حاصل، مآل....فِکشن۔
سو پیارے قارئین! آپ کو تعجب نہیں ہونا چاہےے اگر اس مضمون کا بھی کوئی فِکشن ہو، اَور اگر اِس فِکشن کے دھاگے اُلجھے کے اُلجھے رہیں تو اس غریب مضمون نگار پر الزام نہ دھرئےے.... مضمون کا مضمون ہی کچھ ایسا ہے۔
قصہ گرو قصہ کا ر جب ان لکھی کہانی کے لکھے جانے کی اُمید سے ہوتے ہیں تو صورتوں سراپوں او رخیالات و اصوات کی کیسی بے سروپائی سے جھوجھتے ہیں یہ اپنی جگہ ایک قصہ ہے....صدیوں ہزاروں کی اساطیر، فیبلز، فیئری ٹیلز، لوک کہانیاں، سورمائی کہانیاں اُس کے فکرو خیال کے آفاق میں بہم دگر متعامل اَور دوسرا جانے کتنا کہانیائی الم غلم اُس کے فکروخیال کے آفاق میں بہم دگر متعامل ہوتاہے۔ اَور شاذہی یہ ابتری اُس ہیولائیCHAOSسے کم ابتر ہوتی ہے جس سے کہ کائنات برآمد ہوئی اَور معاملہ اگر روز مرہ کی زندگی سے ہو تو بھی واقعات کے تعامل اَور تال میل کی امکانی صورتوں کا ہیولیٰ کم بلوائی نہیں ہوتا.... سچا قصہ گر کبھی اس بلوے سے بولا تا نہےں، کہ اگر وہ خود دیوتا ہے تو یہ بے ترتیبی ایک دیوی۔ جس کی بھینٹ بس پورے ہوش و حواس کے ساتھ اُس کے حضورحاضری ہے.... اَور ہوش رُبا ابتری کے حضور ہوش و حواس جانے نہ دینا،....شاید یہی ہنروری کو چڑھاوا ہے‘.... یہی ہنر وری کی قیمت۔ کیونکہ اس حضوری کے کہیں بیچ، بھینٹ سوئیکار ہونے پر یعنی ہنروری کی قیمت کی ادائیگی کے ساتھ ہی قصہ گر خود ایک دیوتا میں منقلبہونے لگتا ہے۔ تقلیب مکمل ہوتے ہی وہ قلم اُٹھاتا ہے اور بے صورتی کی صورت گری کرنے لگتا ہے۔
مگر کبھی کبھار....اگر لکھنے والا مجھ ایسا گھامٹر اَور کمزور ہو....اس کمزوری کو بھانپ کر ایک خیال اُس پر خروج کر کے اُسے دیوتائی کرنے سے روک دیتا ہے۔ اپنی بے سروپائی برقرار رکھنے پر بضد ، وہ قرطاس و قلم کا مرہون منت ہوئے بغیر براہِ راست عمل کار و عمل دار دنیا میں جا کر برسرِ عمل ہونا چاہتا ہے۔
عیّار سے زیادہ یہ خیال غدّار اور غدّار سے زیادہ باغی ہوتا ہے کہ یہ ریاست کے اندر ریاست بنا کر اپنی عملداری قائم کرنا چاہتا ہے۔
حریت پسند کہلانے پر بضد یہ خےال بیحد خطرناک ہوتا ہے کہ ذرا سی چوک سے یہ لکھنے والے کو بندی خانے یا فاﺅنٹین ہاﺅس پہنچاسکتا ہے۔ سو یہ فقیر دعا دیتا ہے کہ خدا نہ کرے کہ آپ کا کوئی خیال سینہ تان سر اُٹھا آپ کے سامنے کھڑا ہو جائے۔ محل اس دعا کا یہ ہے کہ یہ فقیر ایسا ایک خیال بھگت چکا ہے۔ جب شامتِ اعمال اُس کے سر آئی اور ایک خیال شورہ پشت ہوا۔
یہ مضمون دراصل اُس خیال کی شورہ پشتی ہی کا مضمون ہے۔
یہ تو طے ہے کہ کبھی کبھار ایسی کتاب معرضِ تحریر میں آجاتی ہے جس سے کہ دنیا وہ نہیں رہتی جو کتاب کی اشاعت سے قبل تھی۔ کارل مارکس کی داس کیپٹیال، ڈارون کی اور یجن آف سپیشیز، ہیریٹ بیچرسٹو کی انکل ٹامز کیبن، سامنے کی مثالیں ہیں.... مگر مجھ ایسا وہ بد نصیب کیا کرے جس کی لکھنے کی صلاحیت معمولی سے کم ہو، جو نا کردہ کار ہو اور کاہلی کے کلٹ سے وابستہ ہو۔ خےال کو جواب خیال آیا کہ ایسا بے مغز جو کاہل بھی ہو اور بے مغزی اُس کی دنیا کے سوداسے بھری ہو وہ کولمبس کتابیں پڑھ پڑھ کے دنیا بدلا کرے....
ملاحظہ فرمائی آپ نے خےال کی خیال فرمائی کہ کس عیاری سے اُس نے شورہ پشتی اپنی پسِ پشت کر لی تھی.... مگر میرے اندر یہ خیال کچھ یوں پھلجھڑی سا چھوٹا تھا کہ سب کچھ بھلا کے میں اس کے پیچھے لگ لیا.... کیونکہ کچھ خےال ایسے دلکش اور لبھاونے ہوتے ہیں جن کے جال پھینکنے سے پہلے ہی آپ اُن میں پھنس جاتے ہیں اَور مزے سے تڑپا کرتے ہیں۔ مجھ ناکردہ کار کے لےے جو کاہلی کو باقاعدہ Premiumادا کرتا ہو، جو جھلنگا چارپائی میں گہرا پڑے پڑے کرمِ کتابی بننے کی سعی¿ مسلسل میں رہنے کو، جبکہ بیوی باقاعدہ وقفوں سے ایسی چائے بہم پہنچاتی رہے جس کا Aromaبے عملی کو راسخ کرتا ہو، انسانی ترفع کا اوج سمجھتا ہو، بتائےے اُسے ایسا طرفہ خیال انسانی فکر کا طرہّ کیوں معلوم نہ ہوتا۔ سو اس خیال کو ایک چانس دینے کی ٹھان کر میں سوچنے لگا کہ ترجیحا،ً اولاً وہ ایک کیا چیز ہو سکتی ہے جسے پڑھ پڑھ کے بدلنے کا اگر مجھے اختیار و موقعہ ملے تو میں یہ کوشش کر دیکھوں۔ اَور یہ ایک چیز ایسی ہونی چاہےے جسے بدلے بغیر باقی کچھ بدلا نہ جا سکے.... یا اگر جسے بدل دیا جائے تو باقی سب کچھ از خود بدلنے لگے۔ بس میرا یہ سوچنا تھا کہ وہ چیز میرے سامنے آ کھڑی ہوئی....جاگیرداری....
غارت گری اس خیال کی محتاج بیان نہیں ....بس یہ سمجھئے کہ چائے کا آرام انگیز اَروما بھی کاہلی کے کام نہ آیا اَورمیں دو ستوفسکی اور پرنس مشکن سے معذرت کےساتھ ایڈیٹ کو ایک طرف رکھے ہوئے، چائے کا گرما گرم پیالہ لیئے کھڑی نیک بخت کو ہکاّ بّکا چھوڑتا چارپائی کے ڈونگھ میں سے اُچھل کر شیلف پر جھپٹا اَور چیفس آف پنجاب، نکال لایا اَور کرسی پر چست و چوکنا بیٹھ کر دھول کچھ جھاڑتے کچھ پھانکتے ہوئے اسے پڑھنے لگا۔ پہلے بھی پڑھ چکا تھا مگر اَب تو بات ہی اور تھی۔ میں ووڈو جھاڑ پھونک نہ رہا تھا کتاب پڑھتا تھا۔ پھر بھی مجھے یقین تھا کہ میرے پڑھے ہر لفظ کے ساتھ،پلٹے ہر ورق کے ساتھ میری او رمیرے وطن کی تقدیر پلٹ رہی ہے.... جاگیرداری کا کوئی انگ کوئی عضو اُس سے ٹوٹ کر ہاری ہل اور بیلوں کے پاﺅں پڑتا رزقِ خاک ہو رہا ہے۔ کبھی کوئی اوجھا کہیں کوئی جادو گر اپنے جادو سے وہ کچھ نہ کر نے پایا تھا جو میں کرنے جا رہا تھا....
مجھ ایسے ہوئے نہوئے نحیف و نزار ناکردہ کار کے لےے جس نے جھلنگ میں پڑے پڑے زندگی بے ماجرا گزار دی تھی، یہاں ایک موقعہ تھا، اسے پُر ماجرا کرنے کا.... نادر موقع۔ میں اپنے وطن کو عظمت سے ہمکنار کر سکتا تھا۔ اَور وطن کے من موہ حسن پرسے بے محابا پلٹ لوٹتی کرنوں کی خےرات سے خودعظےم ہو سکتا تھا۔ ایک مہان ساونت، شجاع....بعد از مرگ جس کے بارے میں یہ سورما ہمارا، ایسا کچھ کہا جانا تھا مگر جس کی سورمائی کا لرمنتوف کے سور مانے کبھی خواب تک نہ دیکھا تھا....زمانہ¿ شجاعت با انداز دگر مجھ سے آغاز ہو نے والا تھا۔
اَب میرے ہاتھ پر تالبوٹ کی ایک کتاب تھی.... پھر میں اپنا بیشتر وقت لائبریریوں میں گزارنے لگا۔ برطانوی حکمرانوں کے عطا کردہ اصل پروانہ ہائے جاگیر میری نظروں سے گزرے....حمزہ علوی کی کتاب جاگیرداری اور سامراج، ختم کر لینے کے بعد ایک روز میں اسی موضوع پر ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب شروع کرنے کو تھا جب محمد حمید شاید کی کتاب”مٹی آدم کھاتی ہے“ موصول ہوئی.... یہ جان کر اطمینان ہوا کہ مجھے درپیش مہم سے یہ کتاب غیر متعلق نہیں۔ دنوں بعد فکشن کا ذائقہ پا کر ذہن ایک کڑوے حَظ اَور تلخی آمیز بہجت سے بھر گیا۔
مجھے رشک ہوا۔ مصنف نے نیزہ¿ قلم فورٹ فیوڈل پر پھےنکا تھا اَور خوب پھینکا تھا۔ایک مضمون مجھے اس پر باندھنا ضرور تھا۔ مصنف کو اپنے اس ارادے سے آگاہ اَور صلاح مشورہ کے لےے میں نے سیل پر اُس کا نمبر روشن کیا۔ پھر یہ سوچ کر کہ جب معاملہ خیال میں خیال سے ہو تو رابطہ بواسطہ Cellٹھیک نہیں۔ عجب نہیں کہ سیلولر بیٹری خےال کو اُڑا کر ہی رکھ دے اَور بات غیر منطقی ہو کر اعتبار کھو دے سو میں نے حمید شاہد کے خیال کو حمید شاہدسے بڑھ کر جانا کہ اُس کے اس خیال میں اُس کی کتاب اَور کردار بھی شامل تھے،....
یوں ایک طرح سے وہ سب میری مہم میں شریک ہوگئے۔ اِس سے جہاں یہ ہوا کہ مہم میں تنہاہونے کے ممکنہ احساس نے سر نہ اُٹھایا.... وہاں ایک خرابی بھی در آئی۔سرعت و شتابی سے ایک قرا¿ت دے کر میں پھر اپنی مہم پر آگیا۔ مگر متزلزل اور ڈگمگائے اعتماد کے ساتھ۔ کہ اَب میںجوبھی پڑھ رہا ہوتا حمید شاہد ایک بالجزم عزم اَور Naggingاصرار اَور ایسی دلجمعی کے ساتھ جو فشارِ خون کو کہیں سے کہیں لے جائے آسوہا نِ روَح ہوتا: یہ جملہ دیکھا.... یہ ٹرن آف فریز....اور خود کو تقسیم در تقسیم کر کے کثرت سے مملو ہوتا یہ مصورخیال....اپنے دماغ کے لسانیات سے متعلق منطقہ سے پوچھ کر بتاﺅ کہ اس نے وہاں کیا آثارونقوش چھوڑے ہیں.... کیوں چپ کیوں ہو، بتاﺅ کیا کہتا ہے تمہارا وہ منطقہ¿ دماغی لیکن اگر اُس منطقہ سے آیا جواب میں اُسے بتادوں تو پھول کر وہ کپا ہو جائے.... میری چپ سے وہ اور بھی جان کو آنے لگتا ہے.... تاآں کہ میں اُٹھ کر کرسی اُسے دے مارتا ہوں .... مگر وہ گوشت پوست کا بنا ہوا تھوڑی ہے۔ وہ تو لفظ ہے۔ جملہ ہے۔ جملوں کا میرِجملہ ہے۔ کسی خراش کے بغیر وہ کہیں نیچے سے نکلتا ہے اور کاغذی پیرہن پہن کر کرسی پر براجمان ہو جاتا ہے۔ اور پیرہن اور پینترا بدل کر آنے کو کبھی اُٹھتا ہے تو اُس کی جگہ اُس کا کوئی کردار لے لیتا ہے۔ اَور کرداروں سے تو توبہ ہی بھلی۔ وہ تو اپنے خالق کی نہیں سنتے کسی کی کیا سنیں گے۔
کہنا پیارے سامعین وقارئین مجھے یہ ہے کہ اگر فیوڈل مونولتھ اپنے دھرمناک رسوخ اور پختگی، اپنی ناگزیریت میں غیر متزلزل یقین کے ساتھ و ہنوز آپ کی روح میں گڑا ہے تو قصور میرا نہیں محمد حمید شاہد کا ہے۔ جس کی کہانی کہنے کی دلآویز مہارت اَور مہارت سے جدا نہ کیا جا سکنے والا لطف، جاگیرداری تئیں میری غضبناکی پر کچے تازہ دودھ کی بوندوں کی طرح پڑتے رہے ہیںتو بتائےے اگر آپ کاEXISTENTIAL ANGST،آپ کے اندر سے ابلتا غصّہ اپنا غیظ، اَور کھولن، کھولاﺅ کھونے لگے.... آپ کی رگوں میں لہو بجائے دوڑتا لاو اشانت اَور شیتل ہونے لگے.... تو رفتہ رفتہ مہم جوئی کیوں آرام جُو نہ ہونے لگے آرام جو نے۔ کم از کم میرے ساتھ یہی ہوا.... جاگیرداری کے کوٹ قلعوں کے کنگرے Blurمیں آ کر دھندلا گئے اَور جب تک دُھند چھٹتی وہ کچھ اور بلند، کچھ اور سنگین اور سفاک ہو چکے تھے....
مجھے ہنریمت ضرور ہوئی ہے۔ مگر میں ہارا نہےں ہوں.... اور ہر چند مہم کی حرکیات میں تغیر آچکا ہے میں ہنوز مہم پر ہوں اور ہمیشہ رہوں گا،....
مگر ایک انوکھے تجربہ کے انجام تک نہ پہنچ سکنے کا تاسف میرے ساتھ ٹھہر گیا تھا۔ میرے افسوس بھرے ہاتھ ایک دوسرے کو سہارا دینے کے لےے پیچھے جا کر جڑ گئے۔ اَور سر اُن پر ٹک گیا۔ ’بھائی شاہد کیوں میری باٹ کھوٹی کری،.... میں بد بدایا۔ مگر یہ بدبداہٹ شاہد نے سن لی کہ خیال تو دھیمی سے دھیمی بدبداہٹ بھی سن لیتا ہے....
’تم کون سا کہیں بھگےّ جا رہے تھے گھوڑے کی طرح سراپٹ.... پرانی سبزی کی طرح کرسی پر پڑے گل سڑ ہی رہے تھے نا.... تو بھائی سڑتے رہوپڑے، کس نے روکا ہے۔ اَور یہ جو کتب کتابٹریاں چاٹے جا رہے ہو پڑے پڑے جوں کتے بلیاں دودھ چاٹتے ہیں لپا لپ وہ بھی چاٹے جاﺅ، کس نے روکا ہے‘.... اُس کی آنکھوں پر شیشے استہزائیہ تھے اَور تلِ چانولی مونچھوں اَور قصہ خوانی سے بھیگے باوقار نچلے ہونٹ کے درمیان دانتوں سے پوری طرح کھِلنے کی اجازت طلب مسکراہٹ.... کاٹ دار۔
مجھے معلوم ہے آپ بھی شاہد کی کہیں گے کہ....گھر کے فرش اور چھت کے درمیانی آرام میں کرسی پر بیٹھے محض کتابیں پڑھتے رہنے سے جاگیرداری کے قلعے ڈھائے جا سکنے پر یقین ایک آرام خواہ سوڈوانٹلکچوئیل کی اساطیری،Quixotieخود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
مگر مجھ ایسا آدمی جس کا اثاثہ کاہلی کے بنک میں رکھی جہالت کے سوا کچھ نہ ہو انٹلکچوئیل کیسے ہو سکتا ہے۔ البتہ PSEUDOضرور ہو سکتا ہے اَور وہ میں دھڑلے سے ہوں۔
میری یہ خود اتلافی بھائی حمید شاہد کو بہت بھائی، اور شیشوں کے پیچھے اُس کی آنکھوں میں استہزاءکی جگہ اہتزاز نے لی کی.... یہ دیکھ کر میری کچھ ہمت بندھی،.... اور Declamation میں شریک کسی لڑکے کے سے جوش کے ساتھ میں نے خطیبانہ کہا:
تو بھائی شاہد میں آپ کو اَور تمام دوسروں، دی اَدرز کو اپنی جہالت کی قوت ایمانی سے حق الیقین دلاتا ہوں کہ گھر کی کرسی میز پر استراحت فرمائی میں غلطاں رہتے ہوئے بھی جاگیرداری کی محض پستک پوتھیوں بہی کھاتوں، ملکیتی دستاویزات میں اُترنا بھی پرت در پرت طبقہ بعد طبقہ جہنم میں اُترنے سے کم نہیں.... اگر نہیں یقین .... تو آئیے میرے ساتھ، شریک ہو جائےے اس مہم میں....
ایک خیال کو کرناکیا ہوتا ہے۔ سوائے خیالوں میں کھوئے رہنے کے، اس لےے حمید شاہد کو اپنی مہم میں شریک کرنے کے لےے مجھے زیادہ مشکل پیش نہ آئی۔
پیارے سامعین وقارئین! آپ میرے لکھے کی بھلے داد نہ دیجئے پر اِس بات کی داد ضرور دیجئے کہ کیسے میںنے حمید شاہد کو، اِس مضمون کا جبکہ ابھی یہ لکھا جا رہاہے سامع قاری اَور ناقد بنا لیا،.... بلکہ اُسے اس مضمون کا شریک مصنف تک کہا جا سکتا ہے۔ یعنی آپ اُس کے ”مٹی آدم کھاتی ہے“ کا مصنف ہونے پر شک کا اظہار کر سکتے ہیں.... (اَور کوئی نہےں کہے گا کہ آپ کا دماغ چل گیا ہے،.... کہ بھائی آج کل ایسے ہی چل دماغی نظریات کا چلن ہے، مثلاً یہ کہ، لکھنے والا کچھ نہیں لکھتا، جو لکھتی ہے لکھت لکھتی ہے وغیرہ) مگر آپ اُس کے اِس زیر تصنیف مضمون کا سامع قاری ناقد اَور شریک مصنف ہونے پر شک نہےں کر سکتے،....
اَور وہ اگر میرا شریک ہے تو اُس کی تحریر اَور کردارِ کیوں پیچھے رہتے.... وہ بھی .... آکر میری مہم میں شریک ہو گئے۔
اَب شاہد نے میری طرف دیکھا جوں پوچھتا ہو:چلیں؟.... میں نے کہا دم لو چلتے ہیں،.... جب مہم ماجرا ہو گئی ہے تو اَب بیٹھو،.... چائے کا ایک ایک پیالہ لیتے ہیں پھر چلتے ہیں،.... اَور آپ جانئے ادیب خواہ خیال ہی میں کیوں نہ ڈھل جائے چائے ضرور پئے گا.... اَور جب وہ چائے چسک رہا تھا تو میں نے ایک ذرا چھیڑ دیا: ویسے شاہد بھائی آپس کی بات ہے،.... ہمارے یہاں کے ساٹھ برس جو ہم نے بسر کئے ہیں اُن بارے کوئی اچھا ناول اَب تک تو لکھا گیا نہیں اَور کسی کا اس میں کوئی قصور بھی نہیں،.... بھائی شاہد آپ کا تو ہر گز نہیں کہ اَبھی آپ کی عمر ہی کیا ہے،.... اتنے اچھے سفید اَور پورے دانتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ دودھ کے دانت بھی ابھی کچھ باقی ہیں ہی....
قصور سارا ہے حسینوں میں حسین ترین اس دلبر.... پاکستان کا.... اِس کی کم عمری کا۔ اَور قصور پیارے پاکستان کا یہ ہے کہ یہ ٹھیک سے کسی کے پاﺅں کو خود پہ جمنے نہےں دیتا.... اگر آپ نے فوجی بوٹ قریب سے دیکھا ہے تو آپ کہیں گے کہ اس میں ایک جگہ جمے رہنے کی ازبس صلاحیت ہے۔ لیکن یہ میرا دیس یہ میرا خواہشِ مرگ ایسا دلفریب وطن، اُس کے حالات کا جبر اَور اس کے البیلے لوگ! انہیں کون سمجھائے، ہر دس گیارہ برس بعد اِس جمے جمائے بوٹ کو اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اس کا افسوسناک نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی، وہ کیا کہنا پسند کریں گے آپ اِسے، شخصی حکومت، آمریت کہ مطلق العنانیت؟، کبھی بھی عالمی معیاروں کو چھو نہےں پائی....
آنجہانی آگستو پنوشے۔ ضرور نام سنا ہوگا آپ نے۔ واللہ کیا آدمی تھا، دیکھئے کیا معیار عطا کیے شخصی طرزِ حکمرانی کو اُس نے....لمحہ بھر کے لئے بھی معذرت خواہ ہوئے بغیر، اس طرزِ حکمرانی کو اُس نے سٹیٹ آف دی آرٹ سٹیٹس عطا کیا۔ وہ مردِ مطلق کہا کرتا تھا:میںمر جاﺅں گا، میرا جا نشین مر جائے گا مگر الیکشن نہیں ہوں گے۔ میں چلّی کے ہر گھرانے کا کم سے کم ایک فردضرور اپنے فرضِ منصبی کے طور پر اٹھوالوں گا....کوئی میرا کچھ نہ بگاڑ سکے گا کیونکہ یہ چلّی کے شاندار مستقبل کے لےے ضروری ہے۔ میں چلی کی، بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی ہر عورت کی کوکھ سے آئندہ کسی آلیندے کے جنم کے امکان کو کھرچ ڈالوں گا۔ کوئی میرا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ کیونکہ یہ چلّی کے روشن مستقبل کے لےے ضروری ہے۔ میں ہر زندہ پابلونروداکو جانبِ مرگ دھکیل دوں گا، کوئی میرا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ کیونکہ یہ چلّی کے روشن مستقبل کے لےے ضروری ہے۔ غور فرمایا آپ نے، کیسا غیر مبہم صاف صاف طنطنہ سے پُر ٹھکا ہوا لہجہ تھا اُس مردِ طناّز کا!.... یقینا اُس کا ذکر آتے ہی مستقبل کا ہر حکمران ٹوپی اُتارے گا یا کم از کم احترامی ہاتھ سے اِسے چھوئے گا ضرور....
میرے لےے اور میرے ایسے بہتوں کے لےے جو باوردی شخصی حکمرانوں کے شیدائی ہیں افسوس اَور خِفت کا مقام اَور کہتری کا موجب ہے کہ ہمارا کوئی بھی والا قدر و والا وردی ٹوپی شان آگستو پنوشے کے مقرر کردہ معیاروں کو نہ چھو سکا، یہ سب اس قدر سیدھے سادھے، سادہ لوح درویش صفت لوگ تھے کہ فوجی چھاﺅنیوں کی نسبت خانقاہیں اِن کے لےے بہتر ٹھکانہ ہوتیں،.... پنوشے اَور پابلو کا لگاﺅ لاگ دیکھئے اَور یادش بخیرایوب خاں کا ادباءشعراءسے ربط خاص دیکھئے.... وطن عزیز کے کسی شاعر ادیب کا نام لیجئے اَور تواریخ کی کتابوں میں درج اُس کی عرضی دیکھ لیجئے کہ جناب سپہ سالار یہ بندہ¿ قلم خوار حضور کی طبع¿ بارود صفت میں ملازمت کا خواستگار ہے،....کچھ ایسے بندگان خاص جوازیں قبل سے افسر شاہی میں تھے اُنہوں نے سپاہ شاہی میں افسری کو رتبے کی بلندی جانا.... اَور جب پاکستان ٹائمز پر ٹرسٹ آیا تو اگلے روز اداریہ لکھا: A NEW LEAF.... مگر متصفوانہ ملامتی صفات میں ضیاءصاحب، ایوب خاںصاحب سے کہیں آگے نکل گئے،.... اتنا آگے کہ اُن کی درویش صفتی کی شہرت سن کر اپنے اچھے پیارے ملامتی شاعر فیض صاحب تک اُن کے سلام کو حاضر ہوگئے،.... اَور اُس سے کہیں اچھی چائے پی کر آئے جتنی بھائی شاہد آپ پی رہے ہو....
تو بتائےے کیسے چُھوتا ہمارا کوئی والا قدر و والا وردی و ٹوپی شان آگستوپنوشے کے مقرر کردہ معیاروں کو! یہاں تو صورتِ حال یہ ہے کہ بھاری بوٹوں کی دھمک بعد میں سنائی دیتی ہے اَور اس دھمک کو مدھم کرنے کے لےے کسی کنونشن لیگ جیم لیگ یا قاف لیگ کا ڈول پہلے ڈال دیا جاتا ہے۔
لیکن صورت حال اِس سے کہیں زیادہ مایوس کن ہو سکتی تھی اگر آسمانِ آمریت پر ایک نام روشن ستارے کی طرح نہ جگمگا رہا ہوتا.... نام جو صورتِ حال کوسنبھالتا ہے۔ اَور مجھ ایسے آمریت پسندوں کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبنے سے بچاتا ہے.... وہ ہے اُسی پیارے کا نام جس نے اپنے فیض صاحب کوچائے پر مدعو کیا تھا.... یعنی جنرل محمد ضیاءالحق صاحب کا نام ۔
بارے خدایا زبان پر یہ کس کا نام آیا کہ.... میری اَور میرے سماج کی اذیت طلب یادداشت حظ مسرت اور تلذذسے بلبلا اُٹھی ہے۔ میرا سماج ٹکٹکی چڑھا ہے۔ اِس کی نرم پشت کے لوتھڑے ہوا میں اڑ رہے ہیں اَور سماج ہے کہ خوشی سے مائیک میں چیخ رہا ہے.... اَور اس کی سماعت میں کوڑوں کی کڑکڑاہٹ کسی ساز کی آواز کی طرح ٹھہر گئی ہے۔ اَور بس اس سماعت کو اسی ساز کی آواز بس ہے۔ یہ اَب کسی اَور ساز یا پایل کی جھنکار کی روا دار نہیں۔
روایت ہے کہ شخصی فوجی حکمرانوں کی ایک Exclusiveگارڈن پارٹی میں ہمارے اس بطلِ جلیل کا سامنا آگستو پنوشے سے ہوا۔پنوشے نے اپنے بھاری ہاتھ سے اُس کا کندھا تائیدی طور پر دبایااَور چند تعریفی کلمات کہے.... اِن توصیفی و تائیدی کلمات سے ہمارے ڈھول سپاہی کا ڈھول کی کھال ایسا کچا پیلا رنگ تک سرخ ہو گیا اَور عظےم آدمی کا شکریہ ادا کرنے کے لےے مناسب الفاظ اُسے چھوڑ گئے.... فی الاصل وہ خود کو عظےم پنوشے کی تعریف کا مستحق نہ پاتا تھا کیونکہ اُس کے اندر ایک ریفرنڈم اَور ایک غیر جماعتی انتخاب کے پلان پک رہے تھے،.... اَور خود کو جائز شوہر ثابت کرنے لئے ایک داشتہ ایک رکھیل، ایک ایسی غیر جماعتی جماعت کی ضرورت بھی وہ محسوس کر رہا تھا جو ہمیشہ اُس کا بیج اُٹھائے پھرے اَور اُس کے پارسا آدرشوں سے گابھن رہے.... ایسی ایک جماعت۔
مگر جو بھی ہویہ سب عظےم آگستوپنوشے کے آدرشوںسے متصادم تھا.... اس لےے اُس کا سر اُس کے سامنے جھکارہا تھا۔ خفیف، نادم، پشیمان لیکن اگر ہمارا ستارہ¿ امتیاز و جرا¿ت و بسالت آمریت کے کلاسیکی اُصولوں سے انحراف کرنے پر خفیف وشرمندہ تھا، ایک منصب وہ ایسا رکھتا تھا جس پر وہ راہئی ملکِ عدم ہونے پربھی سر بلند و سرافراز ہے۔
وہ ہے منصبِ غیر منافقت۔
یہ منصب ہر چھوٹی بڑی سطح پر یوں قائم کرنا پڑا کہ خیر سے بحمد اللہ کوئی آدمی انسان تو وطنِ عزیز میں منافقت کی کسوٹی پر پورا اُترتا دکھائی دیتا نہیں ۔ ہاں چرند پرند میں سے کوئی پورا اُترتا ہو تو کہا نہیں جا سکتا۔ دور کیوں جائےے، مجھے ہی دیکھئے۔ کیا میں کہیں سے بھی منافق دکھائی دیتا ہوں۔ یقینا آپ کہیں گے کہ تم میں تو قسم کھانے تک کو درکار منافقت بھی نہیں۔ آپ کی ژوف نگاہی کی داد دینے کے ساتھ ساتھ میں یہ اضافہ کروں گا کہ فی الاصل منافقت مجھ سے اتنی ہی دور ہے جتنا کہ پنسلوانیا پیپلز کالونی سے۔
مگر افسوس.... اس کے باوجود.... منافقت کے اس صحرا میں ضیاءصاحب سے پہلے پورے تیقن سے کسی کو غیر منافق نہیں کہا جا سکتا تھا.... اُنہوں نے عدم منافقت کی تجریدیت کو ایک بدن، وقار اَور معنی عطا کر کے ہر طرف خوشی کی لہریں دوڑا دیں۔ اُن سے پہلے صورتِ واقعی اس قدر دگرگوں تھی کہ منافق کہے جانے پر لوگ مرنے مارنے پر اُتر آتے تھے یا کم از کم ناک بھوں ضرور چڑھاتے تھے اَور اَب حال یہ ہے کہ جب تک آپ کسی کو غیر منافق ہونے کا یقین نہ دلادیں وہ مارے شرم کے گھر سے نہیں نکلتا اَور جب غیر منافق کہہ کر آپ اُس کی عدم منافقت کی تصدیق اُس کی سماعت میں انڈھیل دیتے ہےں یا تحریری طور پر پر اُس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں تو نہ صرف کہ وہ مارے خوشی کے گھر میں ٹک نہیں پاتا وہ شکرانے کی صورت میں موسمی پھلوں کی ڈالی لے کر آپ کے گھر حاضری بھی دیتا ہے۔ یہ عدم منافقانہ مسرت کا ایک غیر معمولی لمحہ ہوتا ہے۔
دراصل ،غیر منافق، کے لقب سے ملقّب ہونا اِن دنوں میرا اَور میرے ہموطنوں کا مروجہ عذرِ شادمانی ہے اَور ایک دوسرے کو عدم منافقت کی سند سے سرفراز کرنا اجتماعی اور گروہی تقریبِ مسرت کا بہانہ.... موقعہ۔ اَور یہ سب فلک بارگاہ ، آرام نشین آستانہ¿ عالیہ جبڑا شریف، ضیاءصاحب حضرت کی دین ہے۔ اور اس دین ہی کی خیرات ہے کہ پیارا پاکستان پھر کبھی وہ نہ ہوگا جو اِس کے سنگھاسن پر اُن کی پشت فرمائی سے پہلے تھا.... مگر.... ارے ارے .... ارے بھائی صاحب حمید شاہد! خیال رکھئے آپ صرف خیال ہیں اور خےالات کرسی پر پہلو پر پہلو نہےں بدلا کرتے.... ٹکِ کر بیٹھئے۔
’پہلو پر پہلو میںیوں بدل رہا ہوں بھائی کہ میرا جی آپ کو غیر منافق کہنے کو چاہ رہا ہے۔‘
’تو کیا مشکل ہے، نیکی اور پوچھ پوچھ ۔‘
”آپ خوش ہو نگے؟“
’ایسا ویسا،
”لے کر آئیں گے میرے گھر ڈالی موسمی پھلوں کی “
’ساتھ بہت کچھ او ربھی،
تسِ پر وہ کچھ کسمساتے ہوئے، پس وپیش سے ایک بار پھر پہلو بدل کر حیص بیص کھینچتے مجھے کہتے ہیں:’ غیر منافق۔‘.... اور میں خوش ہو جاتا ہوں۔
مگر بھائی شاہد کو ایک آنکھ نہ بھائی میری یہ خوشی اَور اڑچن اڑنگا سا ہو کر کہنے لگے:بھائی اسلم مجھ سے آپ کی یہ خوشی دیکھی نہیں جاتی.... کیونکہ آپ کی ہنسی‘ خوشی کے فریم سے باہر نکل رہی ہے،۔ یہ دانتوں کی ریخوں سے اُوپر اُٹھ کر آپ کے نتھنوں میں جا رہی ہے،۔اس لےے ناک آپ کا زیادہ ہی خوش ہو گیا ہے،۔ مگر آپ کی آنکھیں اس خوشی میں ناک کا ساتھ نہیں دے رہیں،.... اَور نہ ہونٹ اَور ناک ہی ایک دوسرے کا ساتھ دے پا رہے ہیں۔ کھال بھی عجیب طور سے پھڑ پھڑا رہی ہے،۔ غرض آپ کے کسی عضوانگ کی خوشی دوسرے کی خوشی میں سنکِ (SYNC) نہیں کر رہی،.... اَرے بھائی آپ کی تو شکل تک بدل رہی ہے،.... آنکھیں کرنجی ہوگئی ہےںاور اچھا خاصا پکا رنگا پیلا پڑ گیا ہے،.... اَور سرکے بال تو آپ کے ایسے دیوانے ہوئے ہیں خوشی سے.... مانگ سی بیچ میں نکل آئی ہے....بھائی یہ آپ کی شکل توکچھ کچھ ضیاءصاحب ایسی ہو گئی ہے.... بھائی خدا را روکئے اپنی خوشی کو مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی آپ کی خوشی۔ ہاں یہ ٹھیک ہے۔اَب سانس ذرا سکون سے لیجئے.... ایک گھونٹ پانی پیجئے.... اَور اَب بھابی کے ہاتھ سے چائے کا کپ لے کر ایک گھونٹ بھرئےے۔ بھائی یہ کیسی خوشی تھی جو ابھی ابھی آپ پر سے گزری ہے،۔
”یہ وہ خوشی تھی جس کا کوئی ٹھکانہ نہےں ہوتا‘.... میں کہتا ہوں.... اَور اُوپر تلے کئی گھونٹ چائے کے بھرتا ہوں۔“
’ہاں تو بھائی شاہد میں کیا کہہ رہا تھا....‘
آپ در مدح (عدم) منافقت مثنوی تصنیف فرمانے کے لےے قلم تول رہے تھے،....
’واللہ خوب یاد دلایا،.... مگر بھائی شاہدیہ کیا کیا آپ نے،
’کیوں بھائی کیا قصور سرزد ہوا مجھ سے خدانخواستہ،
’اب ایسے بھی بھولے نہ بنیئے،.... میری خوشی سے جل بُھن کباب ہو گئے اَور پوچھتے ہیں کہ کیا قصور،....مہمان ہےں میرے آپ اس لےے کچھ نہیں کہتا ورنہ.... تو میں کہ رہا تھا.... اور واللہ مجھے کہنے دیجئے کہ GENERALISIMOضیاءایک سچے غیر منافق تھے۔اعلی ارفع پارسا متقی پرہیزگار غیر منافق۔ اُنہوں نے اپنی عدم منافقت کو ہمیشہ خالص رکھا۔ کبھی اسے جھوٹ سے ملین نہ ہونے دیا۔ رہِ عدم منافقت میں کوئی اُن کے قدم سے قدم ملا کر چل سکا نہ چل سکے گا۔ اپنی راہ کے وہ ایک ہی راہی ہیں۔ اور ہمیشہ ایک رہیں گے۔ یکتا، لاثانی، نابغہ¿ روزگار، وہ ایک صاحبِ اسلوب غیر منافق تھے۔ قاعدہ¿ عدم منافقت میں اُن کی اختراعات ہمیشہ مشعلِ راہ رہیں گی۔ راہِ عدم منافقت میں اُ ن کے روشن کردہ چراغ گروہِ غیر منافقین کو ہمیشہ راستہ دکھاتے رہیں گے۔کہنا مجھے یہ ہے شاہد بھائی کہ فی الجملہ ضیاءصاحب غَف±رلَہُ عدم منافقت کے میرِ مجلس تھے۔ حیرت انگیز استقلال علو ہمتی اَور عزم بالجزم کے ساتھ وہ رہ عدم منافقت میں گامزن رہے اَور اس راہ میں اُن کے قدوم میمنت لزوم ایک ثانیہ، ایک ثانیہ کی کسرِ قلیل کے لےے بھی نہ ڈگمگائے۔ اُن کے مقصد کی بلندی نے اُنہیں اس قدر لطیف کر دیا تھا کہ ایک روز برائے بجا آوری¿ چندفرائض ضرور یہ ایک طیارے میں کیا سوار ہوئے کہ واصل بہ لطافت ہو گئے۔ کہنے والے کہا کریں کہ کردگار اُنہیں جہنم رسید کرنے پر ایسا اُتار و اتنا اُتا ولا تھا کہ اُس سے صبر نہ ہو ا اَور اُس نے بیس ہزار پاﺅنڈ پٹرول پیٹ بھرے اُس طیارہ¿ سیاہ پر ہی کو بخرہ¿ جہنم میں بدل دیا۔ زبانِ خلق حلقوم میں جیسے مرضی ہلا کرے میں توکہوں گا کہ مجھے ضیاءصاحب غفرلہُ سے سچا پیار تھا۔ اَور کیوں نہ ہوتا۔ کہ ایک عدم منافقت ہی اُن کے کندھے کا جھباّ او رچھاتی کا نشان نہ تھا۔ وہ ایک اور بھی نشانِ امتیاز رکھتے تھے۔ یہ تھی اُن کی جرا¿تِ گمان۔ جری تو اور بھی ہوں گے مگر کتنے جری جرا¿تِ گمان رکھتے ہیں! ضیاءصاحب رکھتے تھے.... وہ یہ گمان کرنے کی جرا¿ت رکھتے تھے کہ بسا اوقات حریف کے مفادات پورے کر کے ہی اپنے مفادات کی پاسداری کی جا سکتی ہے۔ کوتاہ بین شاذ ہی اس جنگی حکمتِ عملی کی کنہ تک پہنچ پاتے ہیں.... مگر جرا¿ت مند کماندار کبھی ایسی کوتاہ بینی کو خاطر میں نہےں لاتے۔ وہ یہ گمان تک کرنے کی جرا¿ت رکھتے ہیں کہ اگر اُمت کی خدمت بجا لاتے ہوئے صیہونی مفادات بھی پورے ہوتے ہوں تو بہادر کماندار کو کبھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے اور اُردنی آرمڈ ڈویژن کو بے جگری سے آگے بڑھاتے ہوئے ہزاروں فلسطینی مہاجرین کو خون میں نہلا کر جرا¿تِ گمان کے تقاضے پورے کرنا چائیں۔
اللہ اللہ ایسی جرا¿ت! ایسی بسالت! یہ یاد کر کے میرے اندر سے سانس شعلے کی طرح نکلتی ہے کہ ضیاءصاحب حضرت نے اُمتِ مسلمہ کے لےے یہ کارنامہ اُس وقت سرانجام دیا جب ابھی ایک بریگیڈئیر تھے فقط وہ۔ مگر کو رچشمئی حسد کی سیاہی ملاحظہ فرمائےے کہ اُدھر تو بریگیڈ ئیر ضیاءصاحب حضرت اُمت کی سربلندی کے لےے نئی تاریخ رقم کر رہے تھے اَور اِدھر وطن میں رقیبانِ رُوسیاہ اُن کے کورٹ مارشل کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ میجر جنرل نوازش اس سلسلے میں زیادہ ہی سرگرم تھے۔ مگر بھلا ہو جنرل مِّٹھا اورجنرل گل حسن کا کہ ہر ضرر رساں آنچ بریگیڈئیر ضیاءسے دور رہی ۔ سچ ہے کہ حق سچ کو کیا آنچ۔٭
بحوالہ:
(i) SHALL WE DISCUSS THE MILITARY':I.A. RAHMAN, THE ٭
NEWS, AUG 12,2007(II) [GENERAL A.O. MITHA: UNLIKEL BEGINNINGS: A SOLDIER'S LIFE, OUP]Y
مگر اتنے برسوں بعد پیچھے دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ گوناں گوں خوبیوں کے ساتھ ضیاءصاحب کی کارکردگی میں ایک کمی ایک خامی بھی رہی۔ ایک فوجی حکمران کو جس کثیر تعداد میں مجھ ایسے رزیلوں، کتوں کمی کمینوں، تحتی ذیلی انسان نماﺅں، سیاسی صحافتی کارکنوں سُوجھوانوں کو گھروں سے نیم شب یادِ ن دیہاڑ ے اُٹھوا کر، غائب کر کے معاشرتی تطہیر کرنی چاہئے تھی وہ اُنہوں نے نہےں کی۔
خوشی کی بات ہے کہ ہمارے موجودہ Generalisimoنے بہت حد تک اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔
مگر کیا کیجئے کہ کمی کو پورا کرنے کی اس کوشش میں بھی ایک کمی ہے.... بڑی عدالت ذرا سا کھنکارتی ہے اَور کھانسی کا دور Generalisimoکو پڑ جاتا ہے۔ اَور چار پانچ گمشدگان بصورت بلغم اگل کر عدالت میں پیش کر دیتے ہیں۔ صاحب کچھ تو سوچئے! آگستو پنوشے کی روح پر کیا گزرتی ہوگی،.... اَور ذرا سوچئے عدالت کے روبرو اگر آپ کے گھٹنے بجیں گے تو مجھ ایسوں کا مورال کتنا پست ہوگا....
اور پھر وہ ہر یالا، لڑکا بالا! جو اپنے بابا کو ڈھونڈنے نکلا تھا۔ پھولدار شرٹ کے نیچے گہرے نیلے رنگ کی جینزپتلون، پاﺅں میں جو گرز....کھِلا پِلا اُڑھا پہنا کے صبح سویرے اُس کے ایک ہاتھ میں پلے کارڈ دوئے میں بابا کی تصویر تھما کے اماّں اُس کی بولی ہوگی: چل بیٹا چل، شاید کہیں مل ہی جائے تیرا بابا۔شاید کوئی سن لے، شاید کوئی دیکھ لے،.... یوں وہ اپنے ایسے سینکڑوں کے ساتھ مل کر دارالحکومت کی ایک کشادہ سٹرک پر آگئے تھے.... میں نے اُسے تب دیکھا جب وہ سڑک پر سے اخبار پر آچکا تھا۔ اپنے بابا کی تصویر اَور پلے کارڈ سختی سے تھامے ،گرنے نہ دیتا ہوا۔ جوں جنگ میں کوئی علم دار علم گرنے نہ دے.... مگر اُس کا دھڑ ٹانگوں پر دہرا ہونے کو تھا اَور منہ پورا کھلا تھا۔ اُس کی طفلانہ خوشروئی ایڈورڈمنچ کے شہرہ آفاق ایکسپریشنسٹ شہکار دی سکریم، کی تصویر بنتی معلوم ہوتی تھی.... کیونکہ پولیس کا ایک ڈنڈا اُس کے درپے تھا.... اتنے سنگین جرم کی اتنی کم سزا!اے میرے اولی الامر۔ پیارے جنرلسی مو! کیا یہ قرینِ انصاف ہے!
اَب تک کی کج مج بیانی سے پیارے حمید شاہد، سامعین، قارئین! آپ پر بخوبی آشکار ہو چکا ہوگا کہ یہ مضمون نگار باوردی حکمرانوں کا کیسا با اخلاص مونس و موید، سچا دلخواہ، ہمدرد، غمخوارو غمگسار اَور حامی و حمایتی ہے۔ فطری طور پر اُسے اُن برسوں کا قلق ہوگا جو وردی زیب تن کئے بغیر گزر گئے۔ جن کے کندھوں پر کوئی جھباّ (EPAULET) تھانہ ہاتھ میں Swagger Stick۔ حیف! تار تار کو ترستے وہ ننگے (ننگِ) بدن، ننگے (ننگِ) قدم غیر محفوظ، بد نصیب برس، سر چھپانے کو جنہیں چھاونی میسر تھی نہ تن ڈھانپنے کو وردی، حیف!
چاہئے تو یہ تھا کہ حضرت قائداعظم کی وفاتِ حسرت آیات کے فوراً بعد یعنی 1948ءسے ہی زمام و عنانِ اقتدار سپہ سالار بہادر افواج پاکستان جناب محمد ایوب خان کو سونپ کر سیاسی سماجی انصرامی انتظامی و اہتمامی معاملات ہاتھ سے جھاڑ کر ہم دونوں ہاتھوں میںصندلِیں منکوں کے گزوں گھیر کی تسبیحیں تھام لیتے۔ محمد ایوب خاں خوش ، ہم بھی خوش، خدا بھی خوش، اگر یوں ہو جاتا تو یقینا آج ہم سب جنت کے مزے لوٹ رہے ہوتے۔ مگر افسوس یہ نا عاقبت اندیش قوم۔ اسے یہ نہ سوجھی نہ اس سے یہ بن پڑا، کہ اگر یوں ہو جاتا تو کیسے اڑتالیس میں ہی پہلا پنج سالہ منصوبہ بن جاتا اَور عشرہ بعد عشرہ ہائے ترقی گزرے چلے جاتے ،وقت کو پر لگ جاتے۔ بہت سے واقعات جو بعد میں رونما ہوئے پہلے رونما ہو جاتے۔ پینسٹھ پچپن میں اَور اکہتر اِکسٹھ میں وقوع پذیر ہو جاتا۔ اَور پھر کجلاہ محمد ایوب خان جواب فیلڈ مارشل کہلا رہے ہوتے او راُن کے بعد ظہور کرنے والے تازہ دم تازہ اسپ تازہ اُردو تازہ بیرل بلکہ تازہ آرسنل ARSENALتازہ واردان جرنیلان جری بندوق کی مکھی پر فکرو نگاہ کے بہتر ارتکاز اور یکسوئی کے ساتھ حُبِّ وطن کے میدانوں میں مارشل لائی رہوار دوڑا سکتے۔
افسوس ایسا نہ ہوا۔ قائداعظمؒ آڑے آئے۔ اُنہوں نے ایوب خاں کو ترقی دینے سے انکار کر دیا اَور ایسا کرنے کے کچھ ہی دیر بعد اُنہوں نے اپنا رہائشی پتہ بدل لیا اور ابدی راحتوں کی بہشت کی ایک پوش سُبرب میں رہنے چلے گئے۔ وہاں وہ مزے میں ہیں۔ باقاعدگی سے شیو کرتے اَور لندن سے منگا کے صرف SAVILLE ROWسوٹ زیب تن کرتے ہیں، شیکسپیئر کو پڑھتے ہیں اَور منہ میں سِگار دبائے گولف کھیلتے ہیں، مگر کچھ بھی کر رہے ہوں حوروں کو بہر طور وہ ایک باوقار فاصلے پر رکھتے ہیں.... یوں ابدی راحتوں کی بہشت میں ہونکی ڈوری.... قائداعظم ، ایوب خاں کی ترقی روک کر اُنہوں نے اُسے بنگالی بون ڈوکس (BOON DOCKS)کے سیلابی اجاڑوں میں بھیج دیا۔ وہاں، اُن بے راحت آبی ویرانوں میں ہی، کالے کلوٹے پستہ قد، اونچی چارخانہ دھوتیوں پر پچکے پیٹ اَور پسلیوں کی نمائش کرتے بنگالیوں کے درمیان رہتے ہوئے ہی....اُس دیوتا سمان اونچے لانبے بھوری آنکھوں والے سرخ و سپید ترین پٹھان کے دل میں بنگالیوں سے نفرت کا پہلا اکھوا پھوٹا تھا.... اس نفرت کو وہ اندر ہی اندر پرورش کرتا رہا اَور پھر 1962ءکے ایک روز اُس نے اپنے وزیر قانون کو بلا کر کہا کہ وہ بنگالیوں سے بات کر کے اُن سے جان چھڑانے کا کوئی راستہ تلاش کرے۔ اَور اُس وزیر قانون (جسٹس منیر) نے جب ایک بنگالی رُکن قومی اسمبلی رمیض الدین احمد سے بات کی تو اُس نے جو جواب دیا آج وہ تاریخ کازمانے سے ایک MACABREمذاق معلوم ہوتا ہے۔ رمیض الدین بولا: اکثریت بھی علیٰحدہ ہوئی ہے کبھی۔ تم نے ہونا ہے تو ہو جاﺅ علیٰحدہ۔ پاکستان تو ہم ہیں۔“یہ مذاق اپنی جگہ۔ اس کے باوجود کوئی عام آدمی نہیں تھا، وہ پیارا کجلاہ، ایوب خان۔ وہ ایک عسکری کرشمہ تھا،.... کمزور لمحوں میں بھی عقل و شعور اُس کا ساتھ نہ چھوڑتے تھے۔ جاتے جاتے بھی بارودی اور بکتر بند دانش اور سلحشورانہ فہم و ذکاءسے کام لیتے ہوئے وہ ہماری زنجیرو زمام ہمارے ایک اورمایہ¿ ناز و فخرو افتخار جنرل محمد یحییٰ خاں کو تھما گیا جس کا نام خمرو خمار آلود مطلع¿ عسکریت پر رہتی دنیا تک جگمگائے گا۔ ہماری ملکی تاریخ اُسے کبھی فراموش نہ کر پائے گی۔ ایک ستم ظریف کا تو یہ تک کہنا ہے کہ میرے منہ میں خاک ملک رہتا ہے تو رہے نہیں رہتا تو نہ رہے جنرل یحییٰ ایسوں کے ستاروں کی جگمگاہٹ کو کسی ایک ملک کے آسمان تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ سنبھال رکھو اپنا ملک وہ ہمسایہ ملک کے آسمان پر جا جگمگائے گا اَور ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ کیونکہ مائل بہ فربہی خواتین اَور بہترین آبِ تلخ، (اپنے حکیم الامت اقبال کے اُسی آبِ نشاط انگیز) کے شائق ہمارے اُس بطلِ جلیل نے وہ کر دکھایا جو شاید ایوب خان کے کسی پنجسالہ منصوبہ کا ایک حصہ تو تھا مگر جو منصوبہ ہی رہا۔
لگتا ہے وہ کچھ دانشورانہ ڈھلمل کا شکار رہا۔ کتنے ہی دانشور اُس کے پس خوردہ کے انتظار میں اُس کے دسترخوان کے نیچے اکڑوں بیٹھے رہا کرتے تھے۔ سو کسی حد تک دانشورانہ ڈھلمل کا اُس میں بار پا جانا فطری تھا.... مگر یحییٰ خاں عملی آدمی تھا۔ ہاتھ بڑھاﺅ پہلو گرمالو، ہاتھ بڑھاﺅ آبِ رنگین حلق سے اُتار لو۔ سو اُس نے مسندِ اقتدار سنبھالنے اَور ہمارے طوق کی زنجیر تھامنے کے دو اڑھائی برس بعد ہی وہ کر دکھایا جو ایوب خان سوچتا رہ گیا تھا.... اُس نے اکہتر کر دیا۔
بس دوستو! پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
ہر طرف اندھیرا چھا گیا اَور اندھیرا ہی رہا جب تک کہ ....ضیاءصاحب نے مطلع¿ سیاست پر نمودار ہو کر اِسے ضیاءبارِ نہ کر دیا۔ اُن کے فضائل و مناقب ازیں قبل گوش گزار کئے جا چکے ہیں۔ اُن کے جانے کے بعد پھر اندھیرا چھا گیا۔ ٹوٹے ہوئے تارے کی لکیر بجھ جانے کے بعد کا اندھیرا۔ بیس ہزار پاﺅنڈ پٹرول پیٹ بھرے طیارے کے زمین بوس ہونے کے بعد کا اندھیرا۔
اَور یہ اندھیرا اُس وقت تک نہ چھٹا جب تک کہ گھنٹوں تاریک آسمان میں زیرِ گردش رہنے کے بعد موجودہ جنرل کے کمانڈو قدم زمین پر نہ آپڑے۔ اَب دیکھئے ہر طرف کیسا سکون کیسا امن کیسا چین و قرار ہے۔ مہینوں گرز جاتے ہیں کہیں سے ڈاکہ زنی کی خبر نہیں آتی۔ پھر، کارِ حکمرانی کے کسی پہلو سے صرفِ نظر نہ کرنے والی ہماری مہربان حکومت، یہ سوچ کر کہ کہیں ڈاکہ زنی کا فنِ شریف دَم ہی نہ توڑ دے، بمشکل کسی سال خوردہ، از ڈاکہ رفتہ ڈاکو کو ڈاکہ زنی پر آمادہ کرتی ہے اَور جو منہ مانگا معاوضہ اس کارِ خیر کاوہ¿ طلب کرتا ہے وہ بھی حکومت اپنی جیبِ خاص یعنی بیت المال سے زکوٰة فنڈ سے یا اقراءفنڈ سے ادا کرتی ہے۔ بسا اوقات کسی بنک سے قرضہ دلا کر پھر رائٹ آف کر کے بھی ایسے نیک خو ڈاکو کی مدد کی جاتی ہے۔ اطمینان بخش پہلو اس فنی طور پر پر اکمل ڈاکہ زنی کا یہ ہے کہ کوئی چِیں بجبیں ہوتا ہے نہ کوئی برا مناتا ہے۔ سب خوش رہتے ہیں۔ لٹنے والا سب سے زیادہ خوش، اُس سے کم حکومت اَور سب سے کم ڈاکو خوش، کہ جسقدر محنت کی اُتنی یافت نہ ہوئی....یہی حال آٹے دال کے بھاﺅ کا ہوا۔ قیمتیں گرتے گرتے پاتال سے باتیں کرنے لگیں۔ یہاں تک کہ ماہرینِ لسانیات اُٹھ کھڑے ہوئے اور رولا پانے لگے کہ قیمتوں کے آسمان سے باتیں کرنے والے محاورے کا کیا بنے گا۔ اس ایک محاورے سے ہی تو آٹے دال کا بھاﺅ معلوم ہوتا ہے۔ یہی نہ رہا تو ہم کھائیںگے کہاں سے۔ مجبوراً حکومت کو ماہرین لسانیات کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچانے کے لےے بادلِ نخواستہ چند اقدامات کرنا پڑے۔ اس برس (2007ئ) گندم کی فصل بمپر ہوئی۔ اندیشہ تھا کہ آٹے کی قیمت پاتال کو چھو کر قطب شمالی یا قطب جنوبی میں سے نکل کر خلاءمیں کھو جائے یعنی بے قیمت ہو جائے۔ حکومت نے سوچا، یہ ہوگیا تو آٹا تو خاک میں رُل جائے گا اَور عجب نہیں کہ خاک نشین دونوں میں فرق نہ کرتے ہوئے آٹے کی جگہ مٹی کی روٹیاں پکا کر کھانے لگیں۔مجبوراً دردِ دِل رکھنے والی ہماری اس پیاری حکومت کو گندم کی بمپر فصل کے باوجود آٹے کی قیمت آسمان پر پہنچانا پڑی۔ محض خاک نشینوں کی خاک نشینی کے پیش نظر۔ محض لسانیات کے اعلیٰ اُصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے۔ بتائےے خوشحالی کا اس سے بڑھ کر عندیہ اور اشاریہ کیا ہوگا۔
یہ میکرو اکنامکس کا دور ہے۔ جس میں بڑی بڑی چیزیں مثلاً سٹیل مل اور سٹیٹ آئل وغیرہ ہی دکھائی دیتی ہیں۔ آٹا دال گھی چاول جیسی مائکرو چیزیں درخورِ اعتنا خیال نہیں کی جاتیں۔ مگر اس وقت ہمارا موضوع یہ خوشحالی نہیں۔ ہمارے لےے وہ اندھیرے زیادہ قابلِ غور ہیں جو ایک سے دوسرے عسکری عہد کے درمیان حائل ہوئے۔ یہ اندھیرے ملکی ترقی، تحفظ، امن و سکون اور خوشحالی کے درمیان گہری کھائی کی طرح حائل ہو گئے....
میں یہاں تک پہنچا تھا کہ پیمانہ¿ صبر بھائی حمید شاہد کا لبریز ہوا اور مجھے چپ کرانے کو وہ یہ پیمانہ میرے منہ ہی میں ٹھونس دیتے اگر وہ کانکھنے نہ لگتے یعنی ایسی آوازیں نہ نکالنے لگتے جو براز کے وقت یا بوجھ اُٹھانے کے وقت منہ سے نکالتے ہیں....وہ خیال تھے۔ بھائی حمید شاہد، ایسا خےال جو غضبناک ہو کر اپنے بدن کی تلاش میں تھا اور مجھے روکنا تھا ہر حال اُنہیں یہ بدن پانے سے۔
”بھائی شاہد! سنبھالئیے اپنے آپ کو.... اتنا بھی برا وقت نہیں آیا ابھی۔“
”اس سے برا وقت او رکیا ہوگا بھائی اسلم کہ محض آپ کی اَول فَول سننے کی پاداش میں فرشتے میرے نامہ¿ اعمال میں گناہ بر گناہ درج کےے جاتے ہیں اور اس گفتگو میں ملوث آپ کے لب و دندان تالو زبان حلق حلقوم کی گوشمالی تو خیرروزِ محشر خُوب ہی ہوگی۔“
”خیر دا ورِ محشر ایسا بھی بے بہرہ¿ آدابِ حشر نہیں۔“
”یہی تو میں پوچھتا ہوں بھائی کہ اگر آپ کو اَدب آداب سے بہت بہرہ ملا ہے تو بتائےے ایسی بے مراد و بے مطلب گفتگو سے آپ کا مدّعا کیا ہے....شعر واَدب خاص طور پر فکشن کے حوالہ سے اور خاص از خاص میرے ناول کے حوالہ سے....‘
’یہ مدعا تو میں بیان کر چکا ہوں....انڈرسٹیٹڈ....“
”نہیں کھل کر بیان کیجئے اوورسٹیٹڈ۔“
”کچھ تھیئٹر یکل نہیں ہو جائے گا۔“
”بھلے ہو جائے۔“
”تو بھائی شاہد کہنا میں نے یہ چاہا ہے کہ اگر کسی قوم کے سبھاﺅ، ڈھنگ ڈھب، طرزِ عمل اور مجموعی تہذیبی ثقافتی اطوار میں قرار و استحکام نہ ہو تو لٹریچر کے دیگر پیرائیہ ہائے اظہار کو رکھےے ایک طرف کم ازکم بڑا ناول تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے فوجی بھائی ایک عرصہ سے لوگوں کو ایک مضبوط او رمستحکم ثقافتی طرزِ عمل اختیار کرنے میں مدد دے رہے ہیں تاکہ جلد ایک اچھا ناول مِنَصّہ¿ شہود پر آسکے۔ لیکن ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں کہ اُنہیں ٹھیک سے قدم ہی نہیں جمانے دیتے۔ جس قدر وہ بیچارے قدم جما پائے۔ اُسی نسبت سے اچھے ناول لکھے گئے۔ آپ کا ناول بھی اسی نسبت سے ایک اچھا ناول ہے۔ خوش ہوئے نا یہ سن کر آپ، مگر صاحب آپ کی آنکھیں کیوں پھٹی پڑ رہی ہیں، کیسی خوشی ہے یہ۔ آپ کی تیز نگہی سے کہیں آپ کے چشمہ کے شیشے نہ تڑخ جائیں۔ توقع نہیں تھی کہ اسقدر بھائے گا آپ کے خیال کو خےال میرا۔‘
”اسلم بھائی ازبس بھایا ہے مجھے آپ کا خیال۔ کیا کہنے اس ایبسرڈلی ٹریجک اور ڈارکلی کامکِ خیال کی خوبی کے....“.... اوریک گو نہ توقف کے بعد، میری چبھتی نظروں کے استفسار سے بچنے کو اُس نے استفسار کیا:
”اسلم بھائی ایمیوزڈ؟“
”میں نے کہا:”بی میوزڈ۔“
پھر کیا تھا۔ بھائی شاہد خود اعتمادی سے اُبل پڑے اَور خوشی کی ایک مسلسل پھوار اُن کے بشرے سے پھوٹنے لگی۔ ایک ہاتھ کی ایک اُنگلی سے اُنہوں نے پہلے اِدھر کے کان کو پھراُدھر کے کو ایک ذرا چھیڑا۔ یوں میری کچھ باتوں کو اُس نے سماعت میں گہرا دبا دیا اَور زیادہ کو سماعت سے نکال باہر کیا.... اَور باتیں جو کاغذ پر لکھی تھیں اُنہیں اپنے زعم حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا۔ اب وہ نہایت خاطر جمعی سے چائے پی رہے تھے۔ پیالہ خالی کر کے کہنے لگے:
مگر بھائی آپ کی طولانی آوارہ کلامی کا کچھ ربط میری کتاب سے بھی ہے کہ نہیں؟۔“
”حضورآپ کی کتاب ہماری مّہمِ عظےم میں رخنہ ہوگئی، اَور جاگیرداری کے خلاف سرپٹ دوڑتے رہوارِ کتابی نے وہ ناخن لیا کہ قلا بازی کھا کر ڈھلان پر سے لڑھکتا نیچے آرہا۔ اَور اُوپر سے آپ سادہ رُخوں سوں ربط کی پوچھتے ہو....بھائی جانتے نہ ہو کہ تلطف جو آپ کی کہانی اَور زبان وبیان نے میرے لہو میں گھول دیا اُس نے میرے اندر کی سَمیَّت کو پی لیا اَور میرا مغلظ اُبلتا غصہ بہت کچھ ٹھنڈا پڑ گیا.... اَب جاگیرداری ہے کہ باہر دندناتی پھرتی ہے اَور میں منہ چھپائے دم سادھے یہاں بیٹھا ہوں اَور کوئی دَم جو آتا ہے اُس میں آپ سے سر کھپاتا ہوں.... یعنی حد ہوگئی ربط کی۔“
مگر وہ بھائی شاہد ہی کیا جو پشیمان ہو یا شرمندہ۔ چشمے کی دو چشموں کو ملاتے پل کو بانسے پر بٹھاتے کہنے لگے:
”پھر بھی کچھ تو کہےے بارے“....یوں کچھ کہنا ہی پڑا بارے جو کچھ یوں تھا کہ:
”بھائی شاہد! وقوع پذیر ہونے کے لےے واقعیت جگہ اور جواز مانگتی ہے۔ تار یخیت کو تاریخ درکار ہے۔ اور رُوپ بہروپ بدلنے، ایک مکھوٹا اُتار دوسرا چڑھانے کے لےے تمثیل و تماشا اَور نقل و نرت کو ایک رنگ منچ.... مگر بھائی میرا کیا بوتا کہ کچھ بولوں.... عفونت کو ہٹانے کے لےے درکار حرکت کہاں سے لاﺅں کہ کس بل سے عاری میرے ہاتھ سو کھ چکے ہیں۔ ستم راں چیزوں کی ترتیب بدلنے کا خیال تک اَب میرے لےے ہر کولیسی جسارت ہے۔ مطلب، بھائی یہ کہ جو کرنا ہے آپ نے کرنا ہے اَور اگر شک گزرے کہ میں نے واقعات کے بل کھول کر واقعیت کو وقوع پذیر ہونے کے لئے جواز او رجگہ فراہم کےے ہیں اَور تاریخیت اور اس کے عوامل و عاملان کو آئینہ تاریخ دکھایا ہے اَور تاریخ کے کھیل کاروں کو کھل کھیلنے کے لےے رنگ منچ فراہم کیا ہے اَور کہیں کہیں کوئی مُشجّرٹانک دی ہے اَور اگر آپ کو میرے اس خیال کی چاپ سنائی دے کہ بیک ڈراپ میں ذراسی تبدیلی سے رنگ منچ روشنی کے بہتر انعکاس میں آجاتا ہے یا کھیل کا روں کے نین نقش نمایاں ہو جاتے ہیں تو اسے خیالِ خام گرد انیے اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو اطمینان رکھئےے کہ فی الاصل IMPRESARIO،منتظم ،آپ ہی ہیں اَور اگر مجھ سے کچھ سرزد ہوا بھی ہے تو آپ کے صلاح مشورہ سے ہوا ہے.... یاد رکھےے کہ.... ہم دونوں اس مضمون کی تصنیف میں ایک دوسرے کے شریک ہیں.... بہ ایں معنی کہ آپ کی کتاب سے حاصل تحریک کے بغیر میں ہر گز قلم نہ اُٹھا پاتا....“
”اچھی عیاری ہے آپ نے تو شکار کر کے مجھے خُرجی میں ڈال لیا ہے۔“ شاہد چیں بجبیں تھے۔
”اَب ایسا بھی بھاﺅ نہ بڑھائےے اپنا شاہد بھائی....خُرجی میری ایسی بھی خالی نہیں کہ جو چاہے شکار ہو کر چلا آئے۔ جنسِ نایاب ہی اس میں جگہ پاتی ہے....“ یہ سن کر شاہد بھائی طبیعت کے بڑے لگاﺅ سے ہنسے.... اَور کہنے لگے۔
”اور وہ جو کھینچ تان کر آپ تاریخ کو جنرل ضیاءتک لے گئے ہیں۔ بتائےے، میرے کرداروں کا اُس سے کیا ناطہ۔ کیا یہ میری کہانی سے دراز دستی نہیں....“
”نہیں....“یہ میجر سلیم تھا۔ شاہد کے ناول کا ایک کردار۔ اُس نے زور دیتے ہوئے کہا:”نہیں ۔ کیونکہ بیانیہ اپنی سی کرتا ہے۔ غیر متعلق کی اپنی کشش ہوتی ہے۔ غیر متعلق عورت کی کشش آدمی کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی اَور غیر متعلق جگہ کی کشش اُسے سیلانی بنا کر سمتیں اور اطراف بھلا دیتی ہے۔ جگہوں، زمین آسمانوں، سیاروں اور سپرنوواﺅں کی کشش کا.... یہ زندگی غیر متعلق کاشاخسانہ ہے۔“ میجر سلیم، میرے گھر میں، میرے اور حمید شاہد کے پیش و عقب کے اندھیرے اُجالے میں ہورہی مٹی آدم کھاتی ہے کی فیڈ ان فیڈ آﺅٹ خاموش ENACTMENTمیں سے نکل کر آیا تھا۔ کبھی ”اُس پر پڑی نظر ٹکتی نہ تھی اور اُس کی کلف لگی خاکی وردی .... سُورج کی کرنوں کو لوٹا کر سنہری ہو جانے والے گھوڑے کی جلد جیسی لگ رہی تھی۔ وہ سیاہ پالش سے چمکتا بھاری بوٹ رکاب میں اڑس کر پلک جھپکنے میں سنہریے پر سوار ہو گیا تھا.... پھر اُس نے سنہریے کی باگ کے دونوں لڑ ایک ہاتھ میں تھام کر قدرے بلند کیے اور اپنے گھٹنے اس کی چھاتی پر مارے تھے، اور دوسرے ہاتھ کو اپنے عقب میں موڑ کر اُس کی پشت کو سہلایا تھا اور شاید اسی تھپکی کو پا کر وہ اڑیل ہوا ہو گیا تھا۔“....
زندگی کے قریب اور زندگی بھری تھی یہ منظر نگاری۔ شاہد نے لفظوں کے استعمال (اُڑس، کے غےر فصیح استعمال کے باوجود) اور جملوں کی ساخت سے منظر کو برقیا دیا تھا۔ سورج کی کرنیں، گھوڑی کی سنہری جلد کاا نہیں لوٹانا، عقب میں مڑتے ہاتھ کی تھپکی سے گھوڑے کا ہوا ہو جانا، یہ زندہ منظر نگاری تھی۔ مگر میجر سلیم کو شاید اس سے سوا بھی زندگی درکار تھی۔ اُسے اپنا غیر مربوط کئے جانا خوش نہ آیا تھا۔ جہاں بٹھاﺅ ، بیٹھے رہنا۔ طیش آنے پر فقط زمین کھرچنے لگنا۔ آگے سے کھلی شرٹ کے پلّو آگے پیچھے جھلاتے اور لیفٹ رائٹ کی آوازیں نکالتے ہوئے منہ سے کف اُڑانا اور پھر زِپ نہ ہک لگی پینٹ کے ڈھیلی ہو کر گھٹنوں تک آ جانے پر منہ کے بل گر جانا۔ جو کاکول سے اپنی ذات کے لیئے شدید پسندیدگی، دوسروں کے لیے اتنی ہی حقارت، گھمنڈ، خود بینی، خود رائی شوخ چشمی اور خبطِ عظمت اور ELITIST ETHOSپر مبنی اخلاقی اور بدنی برتری کا لانگ کورس کرنے کے بعد پاس آﺅٹ ہوا ہو، اُسے اپنا یوں پاگل پلپ (PULP)میں تبدیل ہوتے دیکھنا کیسے خوش آتا۔
رسوئی سے عود کرتے دھوئیں میں کبھی اوجھل کبھی اُجاگر ہوتی کہانی کی نرت نقل (MIMESES)میں سے نکل آکر وہ میری کرسی کی پشت پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا اور حمید شاہد سے مخاطب ہوا:
”تم پوچھتے ہو کہ تمہارے کرداروں کا جنرل ضیاءسے کیا تعلق ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ یہ تمہاری کہانی سے دراز دستی ہے۔ ایسا نہیں ہے کیونکہ مشرقی پاکستان کے سقوط ایسے واقعہ کو محض ماضی کے حوالہ سے نہےں سمجھا جا سکتا۔ اس کی تفہیم، وقت کی تین خانوں میں تقسیم کی تنسیخ سے ہی ہو سکتی ہے۔ یہ بات تفصیلاً تو تمہےں یہ مضمون نگار ہی سمجھائے گا کہ یہ اس کا فرض ہے مجھے تو تم سے یہ پوچھنا ہے کہ تم نے مجھ سے وہ کیوں کیا جو کہ کیا۔ کیوں میں مُنیبہ کو نہ لا سکا اپنے ساتھ۔ لا سکتا تھا میں۔ اتنا بَل تھا مجھ میں۔ مگر تم نے مجھے ایسا کرنے نہ دیا۔ کیونکہ یہ کم ڈرامائی ہوتا ۔ اس لیے؟“
”نہےں“.... شاہد نے اُسے ٹوکا۔ ”اس لیے کہ تمہاری سیچوایشن میں یہ شےم ہیروئک (SHAM HEROIC)ہوتا۔ میں تم پر شجاعت کا ملمع نہےں کر سکتاتھا۔“
”ٹھیک کہا شاہد نے“.... میری اس بات سے شاہد کا حوصلہ چمک اُٹھا۔
”اور سنو میجر“ .... وہ بولا” تمہیں کوئی اختیار نہیں مجھ سے جرح کرنے کا.... کیونکہ میرے ہونے سے تم ہو۔ میرے ہونے سے۔ کیونکہ میں مصنف ہوں اور تم کردار۔ اور مصنف کردا رکی تقدیر ہوتا ہے۔“
”اونہہ مصنف! جو یہ تک نہےں جانتا کہ کاکول سے بطور کیپٹن پاس ہوتے ہےں کہ سیکنڈ لیفٹیننٹ۔ جو ایسا ملے مصنف تو کیوں پھوٹے نہ تقدیر“یوں بُدا بُداتا وہ رسوئی سے آتے دھوئیں میں ہو رہی اپنی زندگی کی خاموش نقل کی طرف بڑھنے لگا۔ یوں کہ ایک قدم بڑھا کر اُسے اپنے گھٹنوں کے جھلاﺅ کے تھم جانے کا انتظار کرنا پڑتا۔ یہ تکلیف دہ تھا۔ مگر اپنی کتابی زندگی کی بیرونِ کتاب بسران میں اُسے بہر طور شریک ہونا تھا کیونکہ وہاں ،وہاں وہ لمحہ بس آنے کو تھا جب اُسے کاکول سے پاس آﺅٹ ہونا تھا۔ آختہ غصے کی بسِ گھولتا وہ دھوئیں میں جا کر اپنی زندگی کھیلنے لگا.... مگر مجھے وہ خیال و فکر کی نئی راہےں سُجھا گیا تھا.... کہ کسی بڑے واقعہ کی صحےح تفہیم کے لیے لمحہ¿ وقوع یا اس کے ماضی میں جھانکنا ہی کافی نہیں۔ ماضی کا مستقبل دیکھنا بھی ضروری ہے۔
وہ دیکھ سکتا تھا کہ الاﺅ جسے دہکا کر اکہتر کے موسم سرما میں آگ تاپنے کے لےے مشرقی پاکستان کو بون فائر بنا یا گیا تھا آج تک روشن ہے اور عسکری اور جاگیری اشرافیہ اپنے گٹھ جوڑ میں شامل ،مُلّا سول نوکر شاہی کے ساتھ آج بھی مسرت و مرگ کے اُس الاﺅ کے گرد دیوانہ وار رقص کناں تھی۔ اور وہ دیکھ سکتا تھا کہ ہر طرح کے رقص کو نگہِ نفرت سے دیکھنے اور ایک رقاصہ کی پایل اُتروا کر اُس کے ٹخنوں پر دُرّے برسانے والا اُس کا ممدوح یہاں شاداںو فرحاں رغبت کے ساتھ مست و رقصاں ہے۔ اور یہ مستی اور دیوانگی اُس کے اس تاسف کی سرد کاٹ کو کسی قدر کم کرتی تھی کہ کاش تب وہ اُمّہ کی طرف سے عائد، فلسطینیوں کے قتلِ عام کا مِلّی مذہبی فریضہ ادا کرنے کی بجائے، بنگالیوں کا کُچلہ قتلہ کر کے اُن کی چربی مشرقی پاکستان کے بون فائر میں پھینک رہا ہوتا۔ یہ سوچ کر کہ جذبہ و جنوں سے بھرپور حبِّ وطن کا یہ کیسا لذّت آفرین اظہار ہوتا اُس کے ممدوح کی لہو آمیز رال ضرور خلیج بنگال میں ٹپکنے کو بیقرار ہو جاتی ہو گی۔ مگر زندگی میں سب کچھ کسے حاصل ہوا ہے۔ حُبِّ وطن، حُبّ دین اورحُبِّ ملت کا اظہار ایک وقت میں آپ ایک ہی جگہ کر سکتے ہےں.... فلسطین یا مشرقی بنگال.... افسوس۔
بون فائر کے اُس ہنگامہ¿ ہاﺅہو کو طرب انگیز تر بنانے کے لیے مذہبیوں کے ساتھ مل کر جاگیری اور عسکری اشرافیہ نے اپنے ہی دو آدمیوں، نیازی اور یحییٰ کو بھی اس میں جھونک دیا تھا اور جل بھُن کر جب وہ سیاہ بخت ہو گئے تھے تو اُن کے ڈھانچوں کو پورے عسکری اعزازات کے ساتھ زیر زمین منتقل کر دیا تھا۔
مستقبل کی اہمیت کا اظہار اُس طمانیت سے بھی ہوتا تھا جو جاگیری اشرافیہ اس بَون فائر کا تصو رکر کے آج بھی محسوس کرتی تھی ۔کیا ہوتا اگر خدانخواستہ مشرقی حصہ تھوڑا بس تھوڑا ہی عرصہ اور پیارے پاکستان کا حصہ رہ گیا ہوتا! شاید آج کسی جاگیر دار کے پاس بھرم رکھنے تک کو زمین نہ ہوتی۔ کیسی کربلا! کسی قیامت! کہ پھر کون کرتا سوِل اور ملٹری بیوروکریسی کے ساتھ مربعوں بھری محبت و مناکحت اور کون پھیرتا ٹُکر گدا ملاّ کی پشت پر خالص گھی میں تر ہاتھ۔
مگر ایسا نہےں تھا کہ اس الاﺅ کا جلاﺅ اُنہوں نے ہمیشہ سے معرضِ مستقبل کے لیے ہی اُٹھا رکھا تھا، یا یہ کہ اپنے فیوڈل فرض سے وہ لمحہ بھر کے لیے بھی غافل رہے تھے.... نہیں.... بنگالی خدشہ سے وہ ہمیشہ اندیشہ ناک رہے تھے۔ مغربی افسر شاہی نے اس خدشہ سے اُس سے کہیں اہانت آمیز سلوک کیا تھا جو انگریز، ہندوستانیوں سے روا رکھتے تھے.... بے وجہ نہےں تھی خواجہ ناظم الدین کی تذلیل۔ اور اُس کی عددی کثر ت کا غرور توڑنے کے لےے برابری (PARITY)کا اصول تو خیر کسی نابغہ کی ذہنی اُپج کا شہکار تھا ہی او رکیسی.... ناک، پانی میں ڈبوتی کراہت آمیز عاجزی کے ساتھ اُن نحیف الجثہ عاجزوں نے کہ جن کی کوتاہ قامتی نوشتہ بر آب تھی اس پیریٹی کو قبول کر لیا تھا کہ یہ کوتاہی، یہ پستی اگر اُن کی عددی کثرت کے سہارے ہی کسی طور.... پیریٹی کے توسط ہی سہی.... مغربی بھائیوں کو بھا جائے، تو مقامِ شکر تھا.... مگر یہ عاجزی یہ انکساری ایک فریب ایک مکر تھا اُن آب سار بنگالیوں کا.... اس لیے اس بات کا خیال رکھا جانا ضروری تھا کہ اس اصول کوصِدق دلی سے قبول کرتے ہوئے کہیں فی الواقعہ وہ اپنی امےدوں اور اُمنگوں کو اس کے مطابق نہ ڈھل جانے دیں۔
اور کہیں اس برابری (PARITY) کے بھرّے غرّے میں آکر سچ مُچ ہی خود کو مغربیوں کے برابر سمجھنے لگ جاویں اَور یکساں معیار کے جائے ضرور یہ سامان کا مطالبہ کر بیٹھیں۔سوتُرتا تُرت یہ کہہ کر اُن کا منہ ٹھپ دینا ضروری تھا کہ سالو صفائی ستھرائی سے تمہیں کیا لینا ، تم تو کیلے کے درختوں پچھے بیٹھ کر اِن ہی کے پتوں سے پونچھ پانچھ فراغت پالیتے ہو۔ بحوالہ شہاب نامہ:قدرت اللہ شہاب ۔۔۔۔۔۔جامہ زیبی کی تذلیل.... .... بنگالی کی یہ تذلیل یہ اہانت ہر مغربی پر فطرتِ کی طرف سے تفویض کیا گیا فرض تھا۔ کیونکہ ایک نظر دیکھنے سے ہی جانا جا سکتا تھا کہ فطرت کی ایک بھول ہے بنگالی۔ ایک سہو،تعطل، التوا، ABERRATION، کھلیانوں میں متکبرانہ گھومتی دھوپ جلی (SUN-BURNT) بلند قامت سرخی و سپیدی کی توہین گریز، گم رہی اور خدا کی شرمندہ پشیمانی اَور شاید اسی لےے اس کی کوتاہ سیاہ روئی مغربیوں کی کھیت تھی اَور اُس کا ننگا دھڑ یا بوالعجب بش شرٹ نیچے ٹانگوں کو لپٹی چار خانہ دھوتی اِدھر کی مکلف اور توہین اَور تذلیل پر مستزاد وہ ایک دھمکی تھا۔ ایک دھمکی، اُس کی زورِ نمو اَور جوشِ افزائش کی حامل، مچھلی چانول مرد میت تھی اَور ایک دھمکی اُس کے ہاتھ میں تھما نوکدار بانس تھا۔ وہ حرامی بنگالی کسی بھی وقت اپنی کثرت کے اس نوکدار بانس سے اُن کی فیوڈل نہانی وپنہانی کو یوں کھدیٹر کر رکھ سکتا تھا کہ پھر زمین رہتی نہ زمینداری نہ جاگیرداری۔ اور ایک دھمکی نذر الاسلام کی شعلہ نوائی میں تھی۔ برسوں سے مفلوج اُس شاعر کی زبان مروڑی کھا کر اُس کے کلے میں پڑی رہتی تھی۔ مگر اُس کی شاعری بھانبڑ کی طرح دھڑ دھڑ بولتی تھی،
پھر شانتی نکیتن کتنی دور تھا۔ بس ایک لکیرپار۔ اور اِس لکیر کو خاطر میں نہ لاتی ایک دھمکی ٹیگور بانی، ٹیگور سنگیت اَور ٹیگور مصوری تھی۔
اور تقسیم سے قبل کے قحط بنگال کے اپنے خاکوں کے ساتھ ایک دھمکی زین العابدین ، کہ کاغذوں سے نکل کر اُس کے خاکے اَب جگہ جگہ بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ کالی، آبنوسی لکیروں سے بنے انسان۔
اور ان تمام دھمکیوں کو پلّے باندھے پھرتے غدّر پارٹی کے غدّار جو چولا بدل کر کمیونسٹ ہو گئے تھے۔
اور دھمکیوں پر دھمکی! بنگالی کھاڑی کے پانیوں کی شورش۔
مغربی حصّے کے بیچارے مٹھی بھر جاگیردار! مشرقی حصّے کی کتنی دھمکیاں ۔ یہ سوچ کر خود رحم مغربی حصّے کی آنسو بھری آنکھیں اوپر اُٹھ جاتیں:
اے خدا، اے تو کہ اَرض و سما جس کی جاگیر میں ہیں، بتا! یہ مٹھی بھر سادہ لوح، تیری زمیں کے زمین دار، مشکل کی اس گھڑی میں تجھے نہیں تو کسے پکاریں،.... بتا کسے!؟
”خدا“ نے یہ فریاد سنی اَور منبر و محراب، نے اُن کی کمک کو شمس و بدر بھجوا دئےے۔ عسکری اور سِول اشرافیہ تو خیر اُن کی گھر کی باندیاں تھیں ہی۔ پہلے اُن سب نے ایک الاﺅ روشن کیا۔ پھر پٹ سن اور بانس کی باڑیوں اَور پانی کی کھاڑیوں، ناﺅ کشتی نو کاﺅں، کشتی بانوں کو اِس میں جھونک دیا.... پانیوں کو آگ دکھا کر مچھلیوں تک کو بھون کر رکھ دیا گیا۔
وہ الاﺅ آج بھی روشن ہے.... بون فائر بجھا نہیں.... اُس کے گِردآغاز ہوا رقصِ دیوانگی آج تک نہیں تھما۔
اَب الاﺅ کا ایندھن کون ہے!؟۔ یہ معّمہ نہیں۔
دیر تک بھائی حمید شاہد کچھ نہ بولا۔ میں بھی خاموشی سے اُس کے ناول کے خاموش تھیئٹر میں محو رہا۔ آخر شاہد بوالا: بھائی اسلم کیا تم نہےں سمجھتے کہ جاگیرداری تئیں تمہاری نفرت مریضا نہ حدوں کو چھوتی ہے۔“
”اگر تمہارا مطلب ہے کہ فیوڈلزل سے محبت ہی اچھی صحت کی علامت ہے تو کیا مذائقہ ہے اگر تم فیوڈل قرابت میں جکڑے اپنے ہی چند کرداروں سے اس بارے میں رائے لے لو۔ اپنی کہانی کے بنیادی بیان کنندہ سے پوچھ لو جو خان جی کے ذاتی اصطبل میں گھوڑوں کے ساتھ رہتا تھا، جسے اپنا وجود گھوڑوں کی لِید کے کیڑوں جیسا لگتا تھا۔ جو لِید باہر ڈھوتے ڈھوتے ایک دن لید پر گر کے مر گیا تھا۔ یا اس کی ماں سے پوچھ لو جو اپنے شوہر کے جثّے سے جڑ کر بیٹھ جاتی اَور اُس کے سر اور داڑھی میں پھنسے ہوئے تنکوں او رلید کے ذرّوں کو چنتی رہتی، روتی رہتی، جسِے ایک روز ، جب وہ اپنے بچے (بیان کنندہ) کے ساتھ کہیں جاتی تھی شیدے نے کھنگورا مار کر کہا تھا:’یہ چھوکر ا تو ہو بہو اپنے خان جی پر گیا ہے۔‘ اَور ....اور بھائی شاہد اُن سے پوچھ لو جنہیں کسی نامعلوم گاڑی نے ویران سٹرک پر کچل دیا تھا۔ بلاشبہ اُن کا بیان تمہیں صحت مندی کی رفعتوں سے آشنا کر دے گا۔ بھائی پوچھو، بلاﺅ اپنے کرداروں کو۔“
’نہیں دور ہی رہنے دو اُن بھڑوں تتیّوں کو مجھ سے‘ شاہد نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔ پھر یک گو نہ توقف کے بعد.... ”میرا مطلب ہے بھائی کہ تم ترچھ آنکھی ہو نہ ایک آنکھی.... پھر اگر تمہیں جاگیرداری دکھتی ہے تو جمہوریت کیوں نہیں دکھتی اپنے وطن کی ؟“
”تمہیں دکھی!؟۔ لگتا نہیں کہ یہ ناول لکھنے کے دوران کبھی ایسا ہوا ہو.... ہوتا بھی کیسے کہ جسے تم جمہوریت کہتے ہو فی الاصل یہ وہ اندھیرے ہیں جو پہلے تو قائداعظمؒ کی وفاتِ حسرت آیات کے بعد سے ۷۲۔اکتوبر ۸۵ ءتک چھائے رہے اور ازاں بعد ایک اور دوسرے عسکری عہد کے درمیان حائل ہوتے رہے۔ ایک اَدیب کے نکتہ نظر سے اِن جمہوری اندھیروں نے ستم یہ ڈھایا کہ قومی سیرت و کردار کا کوئی راسخ، رچاہوااطواری نمونہ یعنیBEHARIOURAL PATTERNنہ بننے دیا اَور لکھنے والے کے سامنے ایسا نمونہ نہ ہو تو وہ کیا لکھے، کہ بنتے بگڑتے اطواری نمونوں کو سامنے رکھ کر ناول لکھنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی صحرا کے ایک حصہ سے اُکھڑ کر دوسری جگہ جا بیٹھتے ٹیلوں بارے ناول لکھنے بیٹھ جائے.... یہ کارِ بیکاری ہے اَور اس کا کرنے والا جنونی، دیوانہ۔ میری بات لاطینی امریکی مثال سے زیادہ بہتر طور پر سمجھی جا سکتی ہے۔ ان ممالک کی خوش بختی سے وہاں برس ہا برس بغیر کسی تعطل کے عسکری حکومتیں راج میں رہی ہیں۔ اس بلا تعطل تسلسل نے وہاں کے لوگوں کو سیرت و کردار کے ایک خاص سانچے میں ڈھال دیا۔ لکھنے والے کو پتہ ہے کہ کن حالات میں لوگ کس ردِّ عمل کا اظہار کریں گے۔سو وہ کاغذوں کے پلندے اَور قلم کے ساتھ سگریٹ اور شراب کا وافر ذخیرہ لے کر خود کو ایک کمرے میں بند کر لیتا ہے۔ اَور جب باہر آتاہے تو ایک شہکار اُس کے ہاتھ میں ہوتا ہے.... مگر یہاں کے اپنے لوگ ! خدا کی پناہ! اُن سے توبہ ہی بھلی۔ کوئی کل سیدھی ان کی نہ کوئی اعتبار۔ بتاﺅ کیا کوئی ایسے کڈھب بے ڈھنگوں کی تصویر کشی کرے۔ کیا کوئی ناول لکھے۔ ابھی کچھ کھوئے کھوئے، تھوڑے ہپناٹائزڈ، ہر احساس سے عاری، احساسِ ذمہ داری کا خاص طور پر بوجھ اُتار پھینکے ہوئے وہ غیر جماعتی انتخابات یاریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے جا رہے ہوتے ہیں کہ اچانک....اچانک اُنہیں جماعتی عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا کہا جاتا ہے۔ اور وہ سکتے سے صدمے، کو ماسے ٹراما کی حالت میں آ جاتے ہیں۔ اور تم مانوگے بھائی حمید شاہد کہ....‘ تم نے یہ ناول کو ما اور ٹراما کو جھیلتے ہوئے.... کوما اَور ٹراما کے درمیان رکھی کرسی پر بیٹھ کر، کوما اور ٹراما کے درمیان جڑی کھڑکی میں سے جھانکتے ہوئے، کوما اور ٹراما میں مبتلا لوگوں کے بارے لکھا ہے۔ اور خوب لکھا ہے۔ اور بھائی حمید شاہد ! لغویت کی د ہشت ناک حقیقت یہ ہے کہ اَب بھی ہم دونوں لغویت پر ٹکی کرسیوں پر بیٹھے، کھڑکی سے باہر کوما اور ٹراما کے درمیان بھرے جاتے سوانگ اور روپ بہروپ کو دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ کھڑکی کے آگے تمہارے کردار تمہاری کہانی کھیل رہے ہیں....
بھائی شاہد تمہارا سوال ایسا بے جا بھی نہیں کہ کیا صورت حالات کی سنگینی کا ازالہ کرنے کے لےے اس کھڑکی میں سے آکر اُمید کی کوئی جمہوری کرن ہماری میز کرسی پر نہیں اُترتی.... او ربے جا ہے بھی یہ سوال، کیونکہ تم مانو گے بھائی شاہد کہ ایوب خاں کے آنے سے قبل ہی سول اور جوڈیشیل افسر شاہی نے کچھ یوں ہاتھ ملائے.... دو ہاتھ گورنر جنرل غلام محمد کے، دو جسٹس منیر کے.... کہ جمہوریت جیسی کیسی بھی تب تھی، اُس کی مُنڈی مروڑ دی گئی.... او ربس اتنی بچ رہی جتنی کہ بیچارے مولوی تمیز الدین برقعہ اوڑھ کر اُسے بچا پائے۔ یعنی ایک موہوم خیال، ایک دور کی اُمید۔ اور اس اُمید کو بھی ایک نوابزادہ لے اُڑے۔ وہی نوابزادہ جنہوں نے تخلیق پاکستان کے فوراً بعد جاگیرداریت کو گود لے کر انجمن تحفظ حقوقِ زمینداراں کی بنیاد رکھی تھی.... تو وہ بیچاری جمہوری اُمید کیا کرتی۔ سقیم ہوتے ہوتے قاف ہوگئی۔
چیں بجیں ہونا بھائی حمید شاہد کا اور دیکھنا خاموش خشمگینی سے مٹی اَور آدم کی کہانی کھیلتے اپنے کرداروں کو، چاہنا کہ ٹو کے اُن میں سے کسی کو کسی اشارہ پر، پر اس اندیشے سے کہ وہ کوئی سوال نہ کر بیٹھے اُلٹا.... نہ ٹوک سکنا۔ اور حساب چکانا میرا اپنی مہم کی غارتگری کا.... اور نہ جان سکنا بھائی شاہد کا کہ فی الاصل میں اپنی برباد مہم کی روداد ہی اُس کے گوش گذار کرتا ہوں....
مگر جسے نوابزادہ نے گود لیا تھا اُس نے خوب ہاتھ پاﺅں نکالے ہیں۔
جاگیردار ایک دیو سار عفریت بن چکا ہے کہ اُس نے بمپر فصلوں بھرے موسم کھائے اَور دریا پیئے ہیں۔ تو کیا اچنبھا کہ اُس کے کثیر پایہ ہونے کے باوجود اُس کی شکم فزونی اُس کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ ہے۔ مگر اُسے جانا بھی کہاں ہے۔ اُس کی پسندیدہ زندگی ساکت زندگی ہے۔ تحرک کو غیرمتحرک کرنا اُس کا پسندیدہ مشغلہ او رلوگوں کو چیزوںمیں بدلتے دیکھنا اس کی نشاط دیدہ و دِل اَور واقعات کو وقوع پذیر ہونے سے روکنا اُس کا روزگار،.... وہ صرف پہنچتا ہے جاتا نہیں اَور اگر جانا ہو بھی تو خانہ زاد شکم گیروں کا ایک لشکر ہے جو اُس کے نچلے پیٹ کو ہاتھوں میں لے کر پیچھے ہٹتا جاتا ہے۔
جاگیرداریت.... جس کے لےے پسندیدہ ترین جگہ وہ ہے جہاں جانا نہ پڑے، جو پیچھے ہٹتی ہے یا اپنی جگہ جمی رہتی ہے۔
مگر یہ باتیں شاید فیوڈلزم کے کلاسیکی تصور بارے میں درست ہوں۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وطن عزیز میں اِس درندے نے خود کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھالنے کی حیرت انگیز صلاحےت کا مظاہرہ کیا ہے۔
قابلِ غور ہے کہ اس کے پاس کرنے کو کتنے کام تھے۔ اسے دیکھتے رہنا تھا کہ اس کی نجی جیلوں میں، بچ بھاگ نکلنے کے لےے ایک رخنہ تک نہ ہو.... کٹائی کے وقت اسے یقینی بنانا تھا کہ کٹائی کرتے کرتے کسی مزارعہ کسی ہاری کی بیڑی کھل نہ جائے اَور کٹائی کے ایک بھر پور جاں گُسِل دِن کے بعد یہ دیکھنا بھی اس کی ذمہ داری کہ کسی کٹائی کرنے والے بچے بوڑھے مرد، عورت، حاملہ یا غیر حاملہ کو مٹھی بھر آٹے اور دو گھونٹ پانی سے زیادہ کچھ نہ ملے۔ ورنہ یہ حرام خور کسی کام کے نہیں رہتے اور اَن اناج کے نشے میں پڑے اینڈتے رہتے ہیں۔
اَور اگر کوئی بیمار ہونے کی مستی کرے تو بھی چو کسی کا تقاضا تھا کہ ایسے ایک کو جلد از جلد ہاری مزارع منڈی میں بیچ دیا جائے اَور اگر کبھی دوا دارو کرنا پڑ ہی جائے تو علاج معالجہ کے خرچہ کو صیغہ¿ قرض میں درج کرنا بھی اسی چوکسی کا تقاضا تھا (یہ سن کر کہانی کا بیان کنندہ اپنی ENACTMENT کے ایک اشارہ میں منجمد ہو جاتا ہے کیونکہ”بڑے خان کے مرنے کے بعد زمین کا وہ ٹکڑا جو بڑے خان جی نے اپنی زندگی میں اُس کے نام کر دیا تھا ، خان جی نے واپس لے کر اپنے اصطبل کے ساتھ ملا لیا، اُس قرض کے بدلے جو اُس کے باپ نے اُس کی ماں کو مرنے سے بچانے کے لےے اُٹھایا اَور شہر کے ڈاکٹروں کو لٹا کر لاش اُٹھا لایا تھا....‘
]مٹی بیان کنندہ کو جنجھوڑ کر اُس کے اشارہ کا جمود توڑتی ہے۔[
اَور اگر کوئی نوجوان لڑکا بالا.... کولہی، بھیل، میگوار، کتک.... کبھی....کبھی، نیلے چاند میں ایک بار سر اُٹھا ہی لے تو قانون کی مدد سے یہ اُٹھا سر جھکانا یا ہاتھ پاﺅن تڑوانا.... اور پھر قانون کے دفتر جا کر اُسے چھڑوانا اَور ایس ایچ او، ایس پی یا ایس ایس پی کی سرزنش کرنا کہ یہ کیا حالت کر دی ہے۔ تم نے اس کی۔ یہ تو بچہ ہے اپنا۔ یوں دلارتے ہوئے لا کر اُسے نجی جیل میں بند کر دینا اور پولیس تھانوں کے چکر میں آئے خرچ کو پھر صیغہ¿ قرض میں درج کرنا.... اور اگر با ایں ہمہ وہ فرار ہونے کی کوشش میں مستقل و مصر رہے تو اُسے گرفتار تو پولیس سے کرانا مگر جیل اپنی میں رکھنا اورپولیس کے تعاون پر آئے خرچ کو پھر قرض کی مد میں شامل کرنا۔ اَور قرض کی رائی کو پہاڑ بنتے دیکھنا۔ آہ بیچارہ جاگیردار! ایک اکیلے کو کرنے کے کتنے کام! کیسی جانکاہ مصروفیات! کیسے کانٹوں بھرے شب و روز!کوئی حد ہے اُس کے محن و مشقت کی!.... کہ برسوں بعد اُس لڑکے کے ، پاﺅں کی بیڑیوں سمیت جیل سے کھیت میں آنے تک، قرض کے سینکڑوں کا لاکھوں ہونے.... لڑکے کے لڑکے سے غلام بننے تک کتنے مراحل ہیں جو ایک بیچارے جاگیردار کو طے کرنا پڑتے ہیں۔ کتنے کام جو نبٹا نا، کتنی ذمہ داریاں جو نبھانا ہیں کیونکہ بالآخر ایک جاگیردار.... ایک باپ، پدر اَور PATRIARCHہوتا ہے اپنے لوگوں کا....
اور اگر کوئی کمیّ کمین، کمینگی کی انتہا کرتے ہوئے قرض کا حساب مانگنے کی رزالت تک اُتر آئے تو اُسے چار چوٹ کی ایسی مار دینا کہ حساب چکتا ہو جائے۔
کیسی مصیبت! کیسی ذمہ داری!
اَور کھیتوں اَور جیل بیچ آتے جاتے اِن کمیّ کمینوں کی لڑکیوں عورتوں پر نظر رکھنا بھی اِس خداوند، خاوند اَور PATRIARCHکی ذمہ داری ہے کہ کہیں یہ چھل بھریاں کسی اُٹھتے ہوئے وڈیرے، خان، مخدوم یا چودھری کو آبروباختہ نہ کر دیں.... تو.... مگر خیر۔ وڈیروں چوہدریوں کے جوان بیچارے یہ دھوکا کھاتے آئے ہی ہیں اَور کھاتے بھی رہیں گے ہمیشہ،.... نطفہ ٹھہر بھی جائے تو پریشانی نہیں۔ بچہ کون سا لڑکے نے جننا ہے.... ہاں، پیدا اگر لڑکی ہو تو البتہ پریشانی پیدا کر سکتی ہے، نوزائید ہ وہ لوتھڑا سی لڑکی۔ بڑی ہو کر جانے کس کس کمی سے منہ کالا کراتی پھرے وہ عالی نسب چودھری وڈیروں کی اولاد.... ڈبکی دو پانی میں اس لوتھڑے کو۔ یا دایہ حرام خور ہی کیوں گردن پر اُنگوٹھا رکھ نہ دبا دے ذرا سا۔
خدا پناہ! کتنے فرائض ہیں جو اُس کے سماج اور رواج نے اُسے تفویض کر رکھے ہیں۔ مثلاً ہاریوں کو پیشگی دیکر خاندانوں کے خاندان غلام بنا لینا، ایک رواج سے زیادہ سماجی، اور ان خاندانوں کے نیچ ذات ہندوہونے کی وجہ سے، سماجی سے زیادہ مذہبی فریضہ ہے۔ اس فریضے کی ادائیگی کے لےے ضروری ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو وہ بانڈڈ لیبر سسٹم ایبولیشن ایکٹ 1992ءکو جُل جھانسہ دے کر غلاموں کو غلام، اور اپنی نجی جیلوں کو، آباد رکھے۔ مذہبی فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے۔ کیونکہ کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان‘ ہندوسانی ایجنٹوں کے ایک کھڑاگ کے سوا کچھ نہیں۔
کیا فوق البشر سے کم صلاحیت کا کوئی بشر اِن تمام فرائض سے بخوبی عہدہ برآہو سکتا ہے۔ نہےں۔
مگر فوق البشر ہوتے ہوئے بھی، خان وڈیرا سردار چودھری، خاکسار اَور منکسر المزاج ہے۔ اپنے تمام فرائض سے ایک سچی لگن اور ہنر مندی سے بڑھ کر مذہبی رقت اور خضوع و خشوع کے گہرے احساس کے ساتھ عہدہ برآہوتے ہوئے بھی وہ کبھی نہیں بھولتا کہ زمانہ بدل رہا ہے۔ (آہ یہ بانڈ ڈلیبر سٹم ایبولیشن ایکٹ 1992ئ)اَور اُس کے فرائض میں سے کٹھن ترین فرض یہی ہے کہ وقت کو بدلے نہ دیا جائے۔ کاش وقت اس کی نجی جیل میں بند ایک ہاری ہوتا۔ افسوس ایسا نہیں تھا۔ ہاں اگر سول او رملٹری بیوروکریسی تک راستے بنا لئے جائیں اَور مولوی دوزخی ملاّ کریسی کو رام کر لیا جائے تو وقت کی غارتگری کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ٹالا جا سکتا ہے۔اَور تسلیم کیا جانا چاہئے کہ جاگیردار نے وقت کو ٹالا ہی نہیں اُسے نکیل ڈال دی ہے۔ بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب او رشمال مغربی سرحدوں کے وسیع علاقہ جات میں وقت زنجیروں میں جکڑا جاگیردار کے سامنے مودب کھڑا دکھائی دیتا ہے،۔ سورج طلوع ہوتا ہے غروب ہوتا ہے۔ برس آتے ہیں جاتے ہیں،.... وقت گزرجاتا ہے، مگر بدلتا نہیں.... کسی مسجد کسی مدرسے سے جاگیرداری کے خلاف آواز اُٹھنا تو درکنار.... وہاں اس بارے میں کبھی ہوئی کسی سرگوشی کی خبر تک باہر نہیں آئی۔ اور سول اورملٹری بیوروکریسی کا تو وہ سمبندھی ہوگیا ہے۔ اِن دونوں کو اُس نے رشتہ داری کی ایسی گرہِ میں باندھ لیا ہے کہ جسے ذرا ڈھیلا کر کے وہ اقتدار کے اعلیٰ ترین سول اورملٹری ایوانوں تک رسائی پالیتا ہے۔ اَور اگر طبیعت، گڑھی حویلی چھوڑنے پر مائل نہ ہو تو وہ گرہ ذری بس ذری سی کستا ہے اَور دونوں کریسیاں اپنی کرسیاں چھوڑ اُس کے اوطاق میں مود¿ب آبیٹھتی ہےں۔
اَور جانفشاں عزم اَور پیچیدہ کار مستقل مزاجی سے اُستوار کردہ اس سمبندھ کا، ناپ تول کر لیا گیا نتیجہ، یہ ہے کہ آج وطن عزیز کے کسی صوبائی یا وفاقی سول سیکر ٹریٹ کی حےثیت کسی جاگیردار کے اوطاق سے زیادہ نہیں ہے.... اَور نہ صوبائی قومی اسمبلی کی حےثیت اُس کے شاتو، مینور (MANOR)حویلی گڑھی یا قلعے سے زیادہ.... اَور ان گڑھی حویلیوں اَور قلعوں سے صادر ہوتے احکامات واوامر، قراردادوں، قوانین.... مضحکہ خیز سنجیدگی لئے ہوئے سارے بے ہنگم شورو غوغا کے ساتھ کی گئی ساری خودراست قانون سازی نے جاگیرداریت کی ٹھوس، قابل محسوس سنگینی کو ایسی کیفیتِ ذہنی ، سٹیٹ آف مائینڈ میں منقلب کر دیا ہے۔ جسے خود پر چسپاں کر کے پھولے پھولے پھرنا ہر کوئی قابل فخر رویہ گردانتا ہے۔
جاگیرداری اَب ایک کیفیت ذہنی بھی ہے.... ایک رویہ بھی ایک مائینڈ سیٹ بھی....
اَور مادہ جب اپنی مادیت کو ذہنیت میں منقلب کر لیتا ہے تو محفوظ ترین ہوتا ہے۔ اَور قابلِ قبول ترین۔
جاگیرداری جس قدر محفوظ اَور قابلِ قبول آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔
اب جاگیردار اپنی جاگیروں سے نکل کر دنیا کی مہنگی ترین مشینوں میں میٹروپولیٹن شاہراہوں پرجوائے رائڈ لیتا ہے۔ ذرا تفنن کے لےے کبھی فلائی اوور پر کبھی انڈر پاس میں خراٹوں کے ساتھ سویا پایا جاتا ہے۔ اَور سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کے گرانی اَور قلت بھرے پرہجوم بازاروں میں لین دین کے درمیان موجود ہوتا ہے۔ چوراہوں پر وہ ہمیں سگنل کرتا اور ریلوے پھاٹکوں پر مسدود کرتا ہے۔ اَور ایئرپورٹس کے آمد وروانگی لاﺅنجز اَور ای سی ایل پر نظر رکھتے ہوئے ابھی ٹیک آف ابھی لینڈ کرتا ہے۔ تمام بینک اَور دیگر مالیاتی ادارے اس کی جیب میں پڑے ہیں اَور جیب خالی ہے۔ وہ مقتدر ہے۔ تمام اقتدار و اختیار اُس کی شراب و شباب بھری ORGIESسے صادر ہوتا ہے۔
وہ قادر ہے۔ قادرِ مطلق سے کچھ کم.... مگر اتنا بھی کم نہیں۔
تو اِسے کہئے تو کیا کہئے۔
ہر چند اُسے آفت ِ جاں کہئے۔ بلائے بے درماں کہئے۔
بہیمہ (BEHEMOTH)گورگون، مینوتا رکہئے.... یا اُن بلاﺅں میں سے ایک کہئے جن کا سامنا امیر حمزہ صاحبقران کو متعدد بار طلسم شکنی کرتے ہوا، بارے اس فریب میں ہرگز نہ رہئے کہ آپ کے خواب و خیال میں دہشت بپا خوف کی کوئی علامت اس کی سفاکی کو بیان کر پائے گی.... البتہ اُن تمام علامتوں کو اگر آپ ایک دوئے میں پیوند کر پائیں، امیر حمزہ اَور دوسرے داستانوی سور ماﺅں کو درپیش بلائیں ایک دوئی کا کلیجہ چبا کر اَور خون پی کر بہم مدغم ہو کر ایک بلا ہو جائیں.... تو شاید اس عظےم الجثہ NEXUS،اس بلا کو ملاّ ملٹری سول بیوروکریسی صنعتکاربزنس فیوڈل گٹھ جوڑ (NEXUS)کہہ سکیں۔ یا زیادہ صحےح طور پر صرف فیوڈل ملاّ ملٹری سول بیوروکریسی نیکسس.... کہ صنعتکاراَور بگ بزنس اپنی کیفیت ذہنی میں فیوڈل ہی ہیں.... دور کیوں جا یئے اپنے لاہوری دوباری کے بھاری مینڈیٹی وزیراعظم کو لیجئے کہ ہُن اُس میاں کے پاس الغاروں ہے اَور یہ ہن بصورتِ حماقت الغاروں ہی اُس کے بشرے پر سے برستا اور ٹپکتا ہے اَور ہر چند بہ لحاظ پیداواری ذرائع نام اُس کا زمرہ¿ صنعتکاراں و سرمایہ داراں درج ہے پہ روےے اُس میاں کے ہر رخ سے فیوڈل تھے.... چلئے اگر آپ اُس کے حمق آشکار چہرے کی چکناہٹ پہ مرتے ہیں تو کچھ رعایت لیجئے اَور اربن فیوڈل کہہ لیجئے۔
اِن میاں اربن فیوڈل کے پُر شہوت ثروت مند تمول کا خواب تھا کہ کسی طور شب بھر کے لےے چیف جسٹس آف پاکستان کو سرکاری مہمان کریں اَور ہوب نوب (HOBNOB)کریں۔ جب یہ آرزوئے میزبانی خاک ہوئی تو نوبت نقارہ بجا کر میاں نے لاہوری لچوں کا لشکرِ جرّار جمع کیا۔ ڈنڈے ہاکیاں اُن کے ہاتھوںاور چھوٹے ہتھیار اُن کی ہتھیلیوں میں دے کر اُن سب شُہدے شرفاءکو بس میں ٹھونسا اَور ڈرائیور کو حکم کیا کہ سپریم کورٹ میں داخل نہےں ہونا، گھسنا بھی نہیں، دَرّانہ جاﺅ یعنی گیٹ کریشن کرو۔ یہ کیا اُس صنعتکار و سرمایہ دار وینڈل (Vandal)میاں نے جس کا، اس سے بھی بڑا ،تاریخی تمدنی تہذیبی جُرم، اُس کے ہاتھوں، فنِ آب رسانی کے حیرت انگیز نمونے، شالامار باغ کے ہائیڈرالک سسٹم کی بربادی ہے.... وینڈل میاں جو اپنی وزارتِ عظمیٰ کے آخری دنوں میں شریعت بلِ لانے کی تیاریوں میں تھا.... تاکہ آخری سانس.... نصیبِ دشمناں اگر سانس آخر ہو ہی جائے تو بطور وزیراعظم تو ہو۔
اَور آج بھی جب اپنی غیر ملکی آرام گاہوں سے وہ وطنِ عزیز کی طرف منہ کھولتا ہے تو یوں نہیں کہ جیسے ایک سرمایہ دار صنعتکارجمہوریا، حاضرِ سروس جرنیل کو پکارے، بلکہ یوں جیسے ایک زخم خوردہ فیوڈل اژدہا دوسرے فیوڈل پر پھنکارے۔
اور یہ دوسرے فیوڈل، اومائی مائی! کیا تم مانو گے بھائی حمید شاہد کہ ضیاءصاحب کے بعد اگر کسی سے میں نے سچی محبت کی ہے تو وہ یہی ہیں، دی فیوڈل جز لسیموآف اینلائییٹنڈ موڈریشن، تعجب نہ ہوگا اگر کوئی فوکو یا ما ہمارے اس سورما بارے ”دی اینڈ آف ہسڑی اینڈ دی لاسٹ فیوڈل“ قسم کا مونو گراف لکھے اور بلاشبہ یہ ہمارے سر پر فخر کا طُرّہ ہوگا۔ مگر بھائی میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری پیشانی بلوں سے بھر کر ہل چلائی کھیتی کی طرح ہوگئی ہے........پر کیوں؟۔
کیا صرف اس لےے کہ اعتدال پسند روشن خےالی صنعتکاروں کی صنعتکار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین شہری اور دیہی زمین کی مالک ہو کر جاگیرداروں کی جاگیردار ہوگئی ہے۔ یا اس لےے کہ ملٹری فارمز کے مزارعوں کے سر پر توپیں گڑی ہیں۔ کھول دیجئے پیشانی کے بل۔ کیا جانتے نہیں آپ کہ یہ توپیں اعتدال پسند ہیں اَور ان کے گولے روشن خےال۔ گویا اَب مملکتِ خدا داد کی ساری کی ساری فوج جاگیرداری کی پشت پر اَور دائیں بائیں کھڑی ہے۔ بھلے کمان اُس ہاتھ میں نہ ہو (اور کیا خبر ہو بھی) یہی کیا کم ہے کہ جاگیردار ذاتی فوج رکھنے کے جھنجھٹ سے چھوٹ گیا ہے۔ سرکار کسی کے لےے بھی اور کہیں بھی آسانیاں پیدا کرے اچھا ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے ریاست جاگیردار ہوگئی ہے تو بھی کیا برا ہے....اَور جو برا لگے ہی تو آپ کہہ لیں کہ: جاگیردار ریاست ہوگیا ہے۔ اور ریاست بھی جوہری....نیو کلیئر ۔ کیوں ہوگئی نا سٹی گم او رپتّہ پانی (یہ بات میں منہ اپنے گریبان میں ڈال کر کہتا ہوں) بہت شوق تھانا جناب کو جاگیرداری بیخِ وبُن سے اکھاڑ پھینکنے کا۔ اَب بڑھو آگے۔ دوڑاﺅ گھوڑا۔ پڑھو کتابیں اور ہو جےے حریف مئے مرد افگن عشق۔ ارے آپ ہی کیا۔ کون سورما ہے جسے سہس ہو اور کون حمزہ جس میں اتنی ہمت کہ کرے صاحبقرانی اور توڑے طلسم جاگیر اور کون سور بیر جس میں بُوتا کہ آگے آئے.... ہے کوئی ! ؟.... اگر نہیں تو بابا باقی کہانیاں ہیں‘.... بس اس خیال کا آنا تھا کہ میں نے گریبان میں سے ذرا سا منہ نکالا اور مٹی آدم کھاتی ہے گریبان میں لے جا کر اِدھر اُدھر سے دیکھنے لگا.... اور گریبان سے باہر بھائی حمید شاہد کی ہنسی تھمنے کا نام نہ لیتی تھی....
میں اُسے ہنستے ہوئے دیکھتا رہا، تا آنکہ اُس کی آنکھوں سے نکلتے ہنستے پانی اُس کی عینک کے فریم کے نچلے حصہ سے رستے ہوئے ہونٹوں کے کناروں تک آنے لگے اور اُس کے بال خوشی سے جھوم اُٹھے، پر جب، پسلیوں سے عود کرتی ہنسی پتلون میں اُڑ سی اُس کی شرٹ کو پھلا کر باہر نکالنے کا جتن کرنے لگی تو مجھ سے رہا نہ گیا.... اچھا نہےں کر رہے تھے، بھائی حمید شاہد۔ میرے گھر میں میری چائے پیتے ہوئے۔
بس میرا یہ سوچنا تھا کہ بھائی شاہد کے خیال کو ہنسی کا پھندہ لگ گیا، جو تب ہی کھلا جب وہ خوب خاطرِ جمعی سے کھانس کھونس لیئے۔ چشمہ اُتار کر آنکھوں کا پانی رومال پر لیتے ہوئے جبکہ چہرہ اُن کا لال بھبھوکا ہو رہا تھا بشاشت سے کہنے لگے :
’بھائی یہ میں آپ پر تھوڑی ہنس رہا تھا۔یہ تو احساسِ جرم کے جاتے رہنے پر اظہارِ طمانیت تھا۔‘
”کیوں بھائی جرم کی جیم تک تو تعلیم پائی نہیں آپ نے، احساس جرم کیسا۔‘
”لو یہ تم پوچھت ہو.... ارے بھائی اُسی تمہاری جاگیرداری کے نہ جانے کا۔ مجھے تو یہ سوچ ہی گھلائے دے رہی تھی کہ بس ایک میرے اور میری کتاب کا رن وطن عزیز جاگیرداری سے پاک ہونے سے رہ گیا۔ کاش نہ آیا ہوتا مجھے اس کہانی کا خیال اَور جو خےال آہی گیا تھا تو ، تو نہ چُھوایا ہوتا میں نے قلم کاغذ سے اس خیال پر کھال منڈھنے کے لےے۔ اورجو ایسا بھی کر لیا تھا تو پڑے خوار ہونے دیتا کاغذوں کو اِدھر اُدھر۔ کیوں شیرازہ و جلد بندی کرا کے کتاب بھجوائی بھائی کو۔ نہ وہ کتاب پڑھتے اور نہ جاگیرداری کے خلاف اُن کی مہم برباد و بے نتیجہ رہتی۔ آج وطنِ عزیز جاگیرداری سے پاک ہوتا.... اور تمہارا نام بہادری سورمائی کے اعلیٰ ترین تذکروں میں درج ہوتا....بتاﺅ ہونا چہیے تھا مجھے احساسِ جرم کہ نہیں۔ تعلیم خواہ جرم کے جیم تک میں نے بھلے نہ پائی ہو۔ میں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ گھرجاتے ہی چھت کے پنکھے سے لٹک کر اس ظالم احساس سے نجات پالوں گا.... اور پیچھے پرچہ چھوڑ جاﺅں گا کہ ملک و قوم کے اس مجرمِ دیرینہ کی قبر پر اہل وطن از راہِ کرم مستقل تھوکا کریں۔ وہ تو بھلا ہو بھائی تمہارا او ر تم سے زیادہ تمہاری بزدلی کا کہ اَب مجھ ایسوں کی قبر پر بھلے لوگوں کو تھوک نہ لُٹانا پڑے گا۔ بتاﺅ یہ طمانیت کی بات ہے کہ نہیں‘ اَور دوسری بات خوشی کی یہ ہے.... تمہیں مبارک ہو.... کہ تمہارا نام بہر طور اعلیٰ ترین تذکروں میں آئے گا۔ بہادری نہیں تو بزدلی ہی کے سہی۔ با خدا بکریوں کے ایک پورے ریوڑ کا دِل چیر کر بزدلی جمع کریں تو بھی تمہاری بزدلی بھاری پڑے گی....“
”جو بکری ہوگا بزدل تو ہوگا۔ بھائی شاہد میں بکری بھی ہوں اور بزدل بھی کیونکہ میں جدّی ہوں۔ CAPRICORN“
اور بھائی شاہد پھونچک رہ گیا۔ اُس کے بشاشت بھرے خوشی میں لت پت بیانیہ کے عین بیچ میں نے معاً اُسے یوں ٹوکا تھا کہ بیانیہ کے بے تے اُڑ گئے تھے اَور میرے اعترافِ بزدلی پر تو جیسے اُسے سکتہ ہوگیا تھا، جس میں سے نکالنے کو میں نے اُس کے آگے کچھ سنیکس رکھے اَور چائے کا ایک اور پیالہ۔ اَور اسے خالی کرکے وہ اُٹھنے کو ہوا۔
”بےٹھو! اَب کون سا تمہیں پنکھے سے لٹکنا ہے۔ کیا کرو گے گھر جا کر“اَور ہنستے ہوئے وہ بیٹھ گیا۔ اور یک گونہ توقف کے بعد کہنے لگا:
”ویسے بھائی، جاگیرداری بارے تمہارا بیانیہ کچھ بے لگام سا نہیں ہے۔“
”اُتنا ہی بے لگام جتنا تمہاری ہنسی کا بیانیہ تھا اَور ازاں بعد میری بزدلی بارے بیانیہ۔ نہ تم قصور وار ہو نہ میں۔ اس لےے کہ بیانیہ خود ایک نامیہ ہے۔ ایک حیاتیہ جو اپنی ذاتی حرکیات (DYNAMICS)رکھتا ہے اَور بڑھتے بڑھتے بنیادی خیال ایک مومینٹم پالیتا ہے اور چمبک کی طرح کسی بنیادی خیال کی زمین سے رگڑ کھاتے ہوئے کئی طرح کے تصورات، محاکات، تشکیلات اور تمثالوں کو ساتھ چمٹائے چلا جاتا ہے.... اگر لکھنے بولنے والا اپنے بنیادی خیال پر قائم بھی ہے اَور بیانےے پر قد غن بھی لگاتا ہے تو اس کا یہ عمل سیلف سنسرشپِ کے ضمن میں آتا ہے اَور یہ سنسر شپِ کی بد ترین قسم ہے۔“
”وہ تو ٹھیک ہے۔ اور یہ بھی میں مانتا ہوں کہ میری کتاب کے بنیادی خیال سے تمہارا بیان اور بیانیہ غیر متعلق نہیں۔ مگر صرف یہی تو اہم نہیں۔ وہ اسلوب بھی اہم ہے جس میں یہ خیال پرت در پرت کھلتا ہے۔ اور تیکنیک۔“
”تمہاری تیکنیک مجھے تسلیم۔ اس نے منوایا ہے اپنے آپ کو۔ یہی تو ہے جس نے روز مرّہ کے پیش پا افتادہ واقعات کو تازہ دم کر کے قابلِ توجہ اَور غیر معمولی بنا دیا ہے۔ سچ پوچھو تو کہوں کہ حاسد ہوا ہوں میں تم سے اس تیکنیک کی بنا پر۔ اور بھی ہوں گے پر کہیں گے تھوڑی۔ یہ کنٹری بیوشن ہے تمہارا، تمہاری کتاب اور اس میں برتی گئی تیکنیک کا کہ شاید یہ پینک میں پڑے کسی مست الست کو آنکس لگائے۔ اور عجب نہیں کہ چند در چند دوسرے بھی اپنی فرسودگی یبوست اور پژمردگی سے نجات پانے کے لےے تم سے رجوع کریں۔ مایوس نہ کرنا اُنہیں۔ کرنا تم رہنمائی، دکھانا روشنی۔ یہ تیکنیک تمہاری کہانی سے پیوست ہو کر کہانی کا ایک کردار ہوگئی ہے....“
بھائی حمید شاہد کو تو پتہ نہیں یہ بات کیسی لگی میجر سلیم کو بہت بری لگی۔ اُسے اسقدر تاﺅ آیا کہ ’مٹی آدم‘ ،کھیل کے اپنے پارٹ میں رُک کر اُس نے کسی کمپنی کمانڈر کی طرح دوسرے کرداروں کو فالومی کا اشارہ کیا اَور اگلا لمحہ ابھی گزرا نہیں تھا اور فیڈان فیڈ آﺅٹ وہ سارے کے سارے آکر ہمارے گرد گھیرا ڈال کھڑے بھی ہو چکے تھے۔ میجر کے عسکری زَعم کی عریانی کو ڈھکے رکھنا اُس کی مَلی دَلی وردی کے لےے مشکل ہو رہا تھا۔ اُس کے لہجے میں محرومی کا عبرت انگیز گھمنڈ اور شکست کا TEMPEREDتکبر تھا۔ وہ ہوا میں تحلیل ہوتے کسی MANNEQUINکی طرح تھا جس کی تجسیم تک رسائی محض اپنے مصنف کے توسط سے ہوئی تھی۔ وہ کہیں بھی دیکھ نہیں رہا تھا، پھر بھی صاف لگ رہا تھا کہ اُس کا مخاطب میں ہوں۔ اَور میرے لےے اُس کے پاس پیس کر رکھ دینے والی وہ اہانت تھی جو عسکری عام طور پر غیر عسکریوں کے لےے روا رکھتے ہیں۔ ناول میں برتی گئی تیکنیک کی میری تعریف نے اُسے غضبناک کر دیا تھا۔ میں نے نرمی سے اُسے سمجھایا کہ افواج اور اخلاقیات میں کوئی تصادم نہیں اور نہ تمیز او رتہذیب سے عسکریت میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔ پھر میں اُس کا مصنف نہیں تھا کہ وہ مجھ پر رُعب جھاڑ سکے۔ مجھے اسلوب تازہ لگا تو لگا۔کیا جھوٹ ہے اس میں۔ وہ کہنے لگا:تازگی ہو تو ہو مگر اس تیکنیک نے جو کرداروں کی زندگی تنگ کر دی ہے....وہ ؟ اُس پر کیوں بات نہےں کرتے تم‘....میں نے حمید شاہد کی طرف دیکھا۔ ذرا دیر پہلے زیرِ لب مچلتی ایک مسکراہٹ جو صورتِ حال سے اُس کی مصنّفانہ بے نیازی کی غماز تھی کسمسا اُٹھی۔ پھر.... میں بے بس اورچپ۔ حمید شاہد بِس گھولتا چپ۔ اور گوئے گفتگو سے کھیلتا میجر سلیم۔ اُس کا کہنا تھا کہ تیکنیکی اُلٹ پھیر اس قدر میکانکی ہے کہ اس نے کرداروں کی زندگی سلب کر لی ہے۔ کوئی بھی کردار چلتا پھرتا محسوس نہےں ہوتا۔ مصنف نے علاقہ ہی نہیں دیا اُنہیں چلنے پھرنے کو۔اوّل تو وہ اُٹھنے ہی نہیں دیتا کسی کو اور کوئی پھر بھی اُٹھ کھڑا ہو تو گھرک کر بٹھا دیتا ہے۔.... کچھ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے ،میجر سلیم ہم دونوں سے اچانک یوں مخاطب ہوا:بھرے بیٹھے ہونا تم دونوں ہمارے خلاف۔ تو باندھو ایک ایک مضمون اپنے خلاف بھی، بعنوان مصنف بطور جاگیردار،.... پھر وہ کہنے لگا:
”جیسے مشرقی پاکستان سے ہم مغربیوں نے بڑی تیکنیک سے خلاصی پائی ہے، اسی طرح مصنف نے بڑی تیکنیک سے ہمیں رُشنائی کے کنویں میں ڈبو کے، کبھی نیزہ¿ قلم ہماری شہ رگ میں چبھو کے مارا ہے.... مصنف نے تیکنیک ہمارے گلے میں تانت کی طرح لپیٹ دی ہے‘.... یہ آخری الفاظ ابھی اُس کے منہ میں تھے کہ جلدی جلدی وہ سب کے سب خود کو ایک قطار میں لے آئے.... اَور پردہ گرنے پر پردے کے آگے آکر جوں کھیل کھیلنے والے جھکتے ہیں۔ وہ پل بھر کے لےے جھکے اور ہمیشہ کے لےے فیڈ آﺅٹ ہوگئے....
مجھے شاہد سے ہمدردی ہوئی۔ آخر میرا دوست ہے وہ۔ قصّہ خوانی میں رفیق۔ کا مریڈاِن قصّہ خوانی۔ اظہارِ افسوس کرتے ہوئے میں نے پوچھا کہ اُس کے کردار اتنا کیوں بھرے بےٹھے ہیں۔ ”کسی کردار نے پہلے کبھی اپنے خالق سے وفا کی ہے جو مجھ سے کریںگے“۔ وہ بولا.... مصنف اورکردار کی وہی قدیم آویزش۔ محبت نفرت۔ لاگ لگاﺅ.... ”اِن سے تو بہ ہی بھلی۔ کئیوں کے کردار تو کتاب کے پنوں سے نکل کر جنجال ہو جاتے ہیں جی کا۔ اور جان کو آنے لگتے ہیں۔ اَور چند ایک تو ایسا ستم ڈھاتے ہیں کہ اپنے گردو پیش کی معاشرتی یاد داشت میں نیزے کی اَنی کی طرح چبھتے رہتے ہیں۔ جیسے اپنا پیارا ٹائیگر نیازی۔ وہ بن سکتا تھانیزے کی اَنی۔ اس لےے میں نے اُسے اپنے چاہِ رُشنائی سے اُبھرنے او رنیزہ¿ قلم تلے سے اُٹھنے نہ دیا....“ کہتے کہتے وہ اپنے اندر اُترتا چلا گیا۔ مجھے اندیشہ ہوا۔ اپنی بِس میں گھلتے کہیں وہ گھل ہی نہ جائے۔ نرمی سے ایک بات چبھو کر میں نے اُسے بِس بھرے کنویں سے نکالا۔ تِس پر وہ بولا:میں تمہاری جگہ ہوتا تو ضرور منہ توڑتا میجر کا۔‘
’توبہ کرو۔ کردار تمہارا۔ اُوپر سے میجر۔ مجھ سا عامی کبھی توڑسکا اتنے برسوں میں منہ ایسوں کا!؟۔
’اچھ ااا! کمزوری کی اس ٹٹی پیچھے کہیں تم ہی تو نہیں ہو تیر انداز‘۔
اَب خدا لگتی یہ تھی کہ میجر کی بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا اَور میں ناول میں برتی گئی تکنیک کو ایک اور رُخ سے دیکھنے لگا تھا۔ مجھے دُبدھا میں پڑے دیکھ کر شاہد نے ٹہوکا دیا تو اندر کی بات باہر آگئی۔ شاہد کی عالی ظرفی کہ میری بات اُس نے تحمل سے سنی.... مگر سن کے اُس نے مجھے یاد دلایا کہ ابھی کچھ ہی پہلے تو میں نے کہا تھا کہ بڑی تازگی ہے اس تکنیک میں، ترفع ہے، توانا پن او رپتہ نہیں کیا کیا۔
”بلاشبہ ایسا ہے، مگر اَب سوچتا ہوں تو تازگی کے با وصف یہ تکنیک مصنف کے خلاّقانہ اختیار کو کم کر کے مواد اور ہیئت کی فطری افسانوی امکانیت کو محدود کرتی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مصنف کے توفیقی جہاں ہائے غیب و ایجاد کے پیغامات کی ترسیل کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے اُس کی ، چناﺅ کی آزادی پر قدغن لگاتی معلوم ہوتی ہے اَور جب مصنف پر قد غن لگے گی تو کرداروں کا کیا حال ہوگا۔ اُن کی موومنٹ کو کتنا علاقہ ملے گا؟ سوچو ذرا۔ یوں یہ تکنیک مصنف کے ذہن سے نکلا وہ ڈنڈا بھی ہو سکتا ہے جو گھومتے ہوئے جا کر افسانوی آرزو مندی کی پُرشکوہ گاڑی کے پہیوں میں جا اٹکا ہو‘.... اِس کے بعد ہمارے پاس بظاہر ایک دوسرے سے کہنے کے لےے کچھ نہ تھا۔ جیسے ناول کا آخری شبد لکھ کے ایک روز محمد حمید شاہد نے سوچا تھا کہ اَب اُس کے پاس کہنے کے لےے کچھ نہیں۔
مگر بات پوری تب ہوئی تھی نہ اَب!۔
کہ بات کا، کہانی کا سب سے اہم کردار تو.... ’مٹی‘.... تھا۔ جو سرِورق تو شبد پہلا تھا مگر کتاب میں آغاز سے آخر تک نہ تھا۔ یوں وہ کلمہ¿ سرورق محض نمائشیت کا غماز ہو کر رہ گیا تھا۔ رُشنائی نے لفظ کو عمدہ کاغذ تک منتقل کرنے میں کیسے کیسے رنج کھینچے تھے۔ پھر طباعت کی کٹھنائی، شیرازہ بندی کی جانسوزی، پھر تجلید اور گردپوشی.... کیا اِس ساری جانکاہ محن و مشقت میں کسی کو ایک پل بھی اُس کا خیال نہ آیا تھا!!؟
ہر سٹیج کی طرح یہ بھی اُسی کی چھاتی پر بار ہوا تھا۔ مگر کاش کھیل کار، ہدایت کار یا منتظم اُسے معمولی PROPاتنی ہی اہمیت دے لیتا۔ پراپ کیا اُسے تو پشوﺅں، اُن کے چارہ چرنے کی چرنیوں، گوبر، گوبر کے کیڑوں سے بھی کم حےثیت سمجھا گیا تھا۔ مٹی کو جو کہانی کا اہم ترین کردار تھی۔ اور تو اور، کہانی کے دیگر کرداروں نے بھی، اُسے پاکوب کرتے ہوئے بھی.... اُس کی کمی محسوس نہ کی تھی۔ کاش وہ مصنف کی جنبشِ قلم کے اسیر نہ ہوتے اور اُس کے بغیر کہانی کے تارو پود میں شریک ہونے سے انکار کر دیتے، اَور کہانی کی خاموش ENACTNENTسے پہلے، اشاروں میں ہی سہی اُس کی غیر موجودگی، اُس کی توہین، اُس کے نظر انداز کئے جانے پر احتجاج کرتے۔
ساری باتیں، ساری گھاتیں مٹی کی آسمان سے رہ و رسم کی باتیں تھیں اَور مٹی سے اُگتی تھیں، جہاں سے چُگ چن کر مصنف نے گھر بار باتوں سے بھر لیا تھا مگر نامِ خدا بھی ایک بات اپنی کہانی میں مٹی کے منہ میں نہ رکھی تھی۔ مکالمہ تو دور کی بات ہے۔ اور وہ جو چوبیسیوں گھنٹے آسمان میں گھومتی اپنے بچوں کے لےے رزق کے ریزے چنتی رہتی تھی اَور تندخو سورج کی کرنوں کے نیزے سہتی تھی، اُس گھمن ہاری کو ایک موو (MOVE)کی اجازت سٹیج پر نہ دی گئی تھی، ہاں، مگر گالی دے دی گئی تھی.... دھرتی ماتا کو، مٹی کو، کہ وہ آدم کھاتی ہے۔
جب سرِورق متہم کر کے .... گلی بازار میں جہاں جہاں کاروبار کتب وقرطاس ہے ، اُسے رُسوا کیا گیا اَور نقارہ بجا کے دانشکدوں میں تفریح متلاش ہجوم بلوا کر اور کاغذوں کے پلندے پڑھ پڑھ اُنہیں بتایا گیا کہ مٹی آدم کھاتی ہے.... تو اپنی اولاد سے یہ گالی کھا کر وہ افسردہ ہوگئی۔ بے نہایت غم گین۔
لوح بھی وہ تھی۔ قلم اقلام اُسی پہ اُگتے تھے۔ رُشنائی بھی اُسی کی رگوں سے لے کر دواتوں میں بھری جاتی تھی۔ سب اُسی سے اُس پر لکھتے تھے۔ پر کتنے تھے جو اُس کے لےے بھی لکھتے تھے۔ نہ لکھیں۔ پہ اتہام بھی تو نہ لکھیں اور دُشنام تو ہر گز نہ لکھیں۔
گمان غالب یہی ہے کہ مصنف اس پر کانوں کو ہاتھ لگائے گا، توبہ تلا کرے گا کہ خدا پناہ وہ کیوں دے گا دھرتی ماتا کو گالی۔ تو بھائی پھر باندھ رکھنا چاہئے تھا اپنے لفظوں کو، کہ ذرا توجہ ہٹی نہیں او رحدِّ قلم سے نکل کر یہ مصنف کے ارادہ سے بھی نکل جاتے ہیں اور وہ .... وہ ستم ڈھا آتے ہیں کہ پھر مصنف ان کے کیئے پر معافی و معذرت خواہ پایا جاتا ہے۔
مصنف کو معلوم ہونا چاہئے کہ لفظوں کی اپنی اپنی جبلت اپنی اپنی سرشت ہوتی ہے۔ نجیب، رزیل سادھو شریر، منکسر متکبر.... ہر طرح کے الفاظ۔ مگر ہر لفظ ہر کلمہ اپنی سرشت کے راز میں ہر مصنف کو شریک نہیں کرتا۔ لیکن اگر کوئی مصنف بے دھیانی میں اُنہیں چھیڑ دے تو وہ چِھڑ کر حدِّ قلم و قرطاس اور مصنف کے مدعا وارادہ سے باہر کی دنیا میں نکل جاتے ہیں اَور بہت کچھ بے تکے دنگاو دُشنام اکھاڑ پچھاڑ سے گزر، شریف کے سر سے دستار اُتار شوم کے سر سجا اور چھینا جھپٹی کر کے او رکئی نوع کے دوسرے شرشرور میں سے گزنے کی سیر خاطر تفریح سے لطف اُٹھانے کے بعد مصنف کی نظر بچا کر اُس کے ارادہ و مرضی کو چکمہ دے کر سرورق سج جاتے ہیں۔
کیونکہ یہ با ارادہ ہوتا تو پھر اُس کے متن (TEXT)کا ایک ذیلی متن (SUBTEXT) ہوتا۔ ایک متوازی بیانیہ، جس میں مٹی کواپنی کہنے دی جاتی۔
فی الجملہ، کلمہ، ’مٹی آدم کھاتی ہے‘، مصنف کے مدعا پر بس او ربند نہےں۔ مصنف کے مدعا کو بیان کر چکنے کے بعد بھی اس میں جگہ خالی رہتی ہے اور باہر پڑے رہ گئے معنی اور ادعّا جنہیں مصنف میسر نہیں آیا تھا یا جو مصنف سے چوک گئے تھے یا جو مصنف کو متوجہ نہےں کر پائے تھے، وہ آکر کلمہ کی خالی وسعتوں کو بھر دیتے ہیں۔ اَب مصنف کیسے کہے کہ وہ بے قصور ہے۔ معصوم او رنجان ہے۔
’روزگارِ قلم و قرطاس میں بے خبری بے گنہی نہیں۔‘
’یہ کون تھا‘....
محمد حمید شاہد کے خیال اَور اس مضمون نگار کے خیال نے سوچا:
یہ کون تھا جو کچھ کہتا تھا مگر دکھائی نہ دیتا تھا....’پیروں میں رُلنے والے کہاں دکھائی دیتے ہیں‘ ....کہنے والے نے کہا۔
فی الاصل یہ مٹی تھی۔ جو گاہے نسیم بری بحری ، گاہے واﺅ ورولوں، گردبادوں اَور گاہے بادصبحگاہی پر اپنی بات.... بات جو اُس سے پوچھی گئی نہ کہنے دی گئی۔ اُن کی سماعت تک پہنچاتی تھی۔ مگر اُن کی سماعت سخن رسانی کے اس قرینے سے شناسا کب تھی‘....
وہ دونوں تھوڑا سمجھ پائے۔زیادہ نہ پائے مٹی اپنی بات کا ضیاع سہن نہ کر پائی۔تب
لفظ، مٹی، حمید شاہد کے ناول کے سرورق کو چھوڑ گیا اَور بیک آف دی بیک سٹیج سے سیاراتی رفتار سے نکلتا بیونڈ میں جا کر طلوع ہوتا گیا۔.... سیارہ زمین۔
زمین ہمارے پیروں تلے سے نکل چکی تھی، کہیں درو دیوار تھے نہ کوئی دوسرے قابلِ محسوس مظاہر۔ دور سورج تھا اَور بے حدو کنار خالی پن۔ امّاں دھرتی کا مناسب آدر احترام نہ کرنے پر، کیا زمین ہمارے قدموں تلے سے لے کر ہمیں بے سیارہ کر کے، کیا سور منڈل (نظامِ شمسی) ہم سے چھینا جا رہا تھا!۔ کیا ہم سور منڈل کے کالے اُجاڑ(HELIOSE HEATH)کی جانب ہنکائے جا رہے تھے؟ کیا ہم سے نسلِ انسانی کی معدومیت کا آغاز ہونے والا تھا؟۔ ہمارا یہ اَندیشہ سن کر وہ بولی:
”نہیں پترو نہیں! کہاں رہ سکتی ہوں میں تمہارے بغیر۔ تم بھلے میری بوٹیاں نوچا کرو۔ بس تمہارے ایک پل کے کھربویں کے کھربویں کے بھی کھربویں حصّے کے لےے میں تمہارے قدموں تلے سے نکلی رہوں گی۔ تاکہ تمہارے سامنے آکے تم سے رو بہ رو دو ایک باتیں کہہ سکوں۔ اس کے بعد میں پھر تمہیں گود بھرلوں گی۔ اس بیچ مجھ سے دوری، میری جدائی کو محسوس کرو۔ تھوڑا تڑپو میرے لےے مگر ساتھ ہی دھیرج بھی دھرو۔ جی چھوٹا کرو نہ ہاتھ پاﺅں چھوڑو نہ ہمت ہی ہارو۔ جو میں نے تمہیں کھلایا پلایا ہے کیا اتنا بھی قوت بخش نہیں کہ تمہیں ایک پل کی ایسی چھوٹائی کے لےے قائم نہ رکھ سکے۔“
سمندروں کا نیلا زہر اُس کی گہرائیوں کی گہرائی میں اُتر گیا معلوم ہوتا تھا.... مگر اپنی کوکھ میں اس زہر کو وہ جانے کس کیمیا سے گزارتی کہ جہاں جہاں یہ پانی ساحلوں سے ٹکراتے موج بہ موج لہر بہ لہر زندگی بچھاتے جاتے۔ ایسی ایک شریر موج اُن پر چھینٹے اُڑا گئی تو دھرتی نے پگھلے ہوئے سونے کا گھونگھٹ کاڑھ لیا اَور خوشی سے نہال کانسی کے تھال کی سی جھنکار اطراف و ابعاد کو بھرنے لگی۔ تب چٹانیں پگھل گئیں اور لاوے کی دھاراﺅں کا پسینہ اُس کی پیشانی پر نمودار ہوگیا او رسونامی دُزد قدمی سے گئے اور ساحلوں پر لاشیں بچھا کر لوٹ آئے....دھرتی امّاں اتنا روئی کہ روتے روتے اُس کی آنکھیں صحرا ہوگئیں۔ اور ایک صحرائی آنکھ میں سہیل ڈوب اور دوسری میں طلوع ہو رہا تھا۔وہاں چیزیں اتنی تھیں کہ حرف حیران تھے کہ کس دوسرے حرف سے مل کر کس چیز کے لیے لفظ بنائیں اور ہمیں یقین تھا کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے تھے اُسے بیان کرنے کے لیے کبھی کوئی لفظ نہ بن پائے گا۔ اُس کے چہرے پر مصوری کے اُن شہکاروں کے خطوط و خم اور رنگ تھے، جو ظہور میں آ چکے تھے اور جو ابھی پردئہ غیب پر تھے اور وہ سُر اور لے، تان، اور توڑے بھی اپنے سرمدی سبھاﺅ کی لہروں میں اُس کے مُکھ پر ملائمت سے تیر رہے تھے، جن کے لیے کہیں کوئی پردئہ ساز اور کہیں کوئی موج صدا منتظر تھی۔ قُربِ خدا کی آغوش میں ہمکتا شیر خوار بے پرواہ حسن، سبزہ آغاز دلآویز کمسنی کی مہلک دلفریبی، قدموں تلے کی مٹی سے اُٹھ کر بدن میں دوڑتی، مٹی کی صدائیں سنتی پختہ عمری کی وجیہہ دلکشی، شکوہ و سطوت، رفعت و جبروت، ہیبت ناک و تحیر خیز شجر و حجر دشت و دریا کا دلآرام و دلستاں حسن، سیم وتھور کے مرگ آثار حسن کے رنگ نیرنگ، بھاﺅ سبھاﺅ، حیلہ جوئی، کج ادا برودت و برنائی، سرد مہر گریز، گرمجوش خود سپردگی، جو ہر حیات لٹاتی ہلاکت خوئی.... غرض حسنِ ہزار شےوہ کی، بو قلمونی کے سارے قابل و ناقابلِ تصور اجزائے ترکیبی خام حالت میں قریب آ کر دور ہوتے اور ظاہر ہو کر مٹتے ہوئے اُس کے چہرے پر آشکار ہو رہے تھے۔ ہم اُسے اُمید اور ارچنا بھری شیر خوار ہمک سے دیکھتے رہے.... وہ کہہ رہی تھی:
’نہیں، میں آدم نہےں کھاتی۔ آدم خور نہیں ہوں میں.... میں، نہ میری مٹی۔ کیا میں اپنے بچے کھاﺅں گی۔ میں تو تمہاری ہڈیوں، تمہاری راکھ پر اتنے آنسو بہاتی ہوں کہ جوشِ نمو سے تم پھر جی اُٹھتے ہو.... مگر تمہاری بھوک تو پلک جھپکن میں میرے میلوں بارانی جنگل ہڑپ کر لیتی ہے.... پھیپھڑے ہےں یہ میرے.... ہر ہر بار جب تم ان میں مشینی دانت گاڑتے ہو، میں سانس کے لیے ہانپنے لگتی ہوں۔ درد اتنا ہوتا ہے کہ ایک خفیف پل کے لیے محور میں رُک جانے کو جی چاہتا ہے۔ شاید یوں ہی کبھی مدار سے گر جاﺅں اور تمہارے چیرہ دست ہاتھوں سے دور خلائے بسیط میں کھو جاﺅں۔
میری مٹی تمہارے نطفہ تمہارے بیضہ میں ڈھلتی ہے۔ اپنا آپ دے کر اپنی مٹی سے تمہےں بناتی ہوں اور تم میری مٹی میں ٹاکسک ویسٹ بھر رہے ہو۔ غور کرو آدم! گردو پیش میں نظر دوڑاﺅ تم دیکھو گے کہ تمہارے اس عمل سے تمہاری سرشت ٹاکسک(Toxic)ہو گئی ہے۔ تمہاری تیزاب خوئی کے رنگ ڈھنگ سارے تابکارانہ ہیں۔ وہ دِن دُور نہےں جب بجائے آدم کے تم تاکسا دم (Toxadam)یا اتادم (Atodam)کہلاﺅ گے۔ پر تب تک زندہ بچے تب نا! آدم کے نام سے تم دنیا میں رہے اور تاکسا دم یا اتادم کے نام سے چلے جاﺅ گے۔ میرے موسم میری ہوائیں میرے دودھ میرے پانی، رس بھرے ترش و شیریں پھل، سوچو کن بلندیوں سے پگھل کر میری برفیں تمہاری پیاس بجھانے آتی ہےں۔ میرا سارا وجود صرف تمہاری نمو ، تمہار افزائش کے لیے وقف ہے اور تم ہو کہ میرے وجود میں زہر بھر رہے ہو۔ بتاﺅ زہر خورانی کا شکار ہونے سے تم کب تک بچ پاﺅ گے۔ ہاں پُتر آدم بتاﺅ! اپنے آپ کو تلف کرنے کی یہ خواہش، یہ خواہشِ مرگ تم میں کہاں سے آئی۔ یہ میرے دودھ میں تو نہ تھی۔ تم خود کو کھاتے ہو اور کہتے ہو مٹی آدم کھاتی ہے۔ پُتر آدم! یہ آگ یہ آتش تم میں کہاں سے آئی، کیوں ہو گئے تم اس قدر آتشناک؟ کیوں کیا تم نے اس آگ کا اکتساب۔ میں تمہیں حیات کے لیے ضروری حرارت دیتی ہوں اور تم اسے آتش میں بدل کر جلنے جلانے کھولنے کھولانے لگتے ہو۔ دیکھو تم نے اپنا گردو پیش کس قدر تپا دیا ہے۔ گزشتہ سے گزشتہ برس (2005ء)تمہاری یہاں پر تاریخ کا گرم ترین سال تھا۔ جن فضائی راستوں میں کبھی ہوائیں اور نامعلوم کے اسرار سفر کرتے تھے اُنہیں تم نے اس قدر گرما دیا ہے کہ اب فطرت کے کسی راز کو تم پر منکشف ہونے سے کوئی دلچسپی نہےں کیونکہ فضا کو آگ لگانے والی گیسیں (کاربن ڈائی آکسائیڈ، کلوروفلورو کاربنز) جس قدر آج اس میں موجود ہیں اتنی گزشتہ چھ لاکھ برس میں کبھی موجود نہیں ہوئیں۔ حال یہی رہا تو بتاﺅ قطبین پر برف کب تک جمی رہے گی۔ یہ برف اس قدر چمکیلی اور انعکاسی ہے کہ شمسی حرارت کے ایک بڑے حصے کو فضا میں لوٹا کر اس کی ضرررسانی کا غرور توڑ دیتی ہے۔ محافظ ہے یہ برف تمہاری۔ مگر تم میں حسِ خود حفاظت ہو تب نا! تم تو خود اتلافی کی حس سے بھرے ہو، مونہا مونہہ۔ ورنہ کیوں اس برف کے در پے ہوتے۔ بتاﺅ تمہاری کرنیوں کارن یہ کب تک اپنی جگہ جمی رہے گی۔ زیادہ سے زیادہ اس صدی کے وسط تک۔ اس پگھلی برف کا پانی اور پگھلتے گلیشیئروں کا پانی! جانتے ہو اس سے سطحِ سمندر کتنی بلند ہو جائے گی۔ اتنی کہ کئی ساحلی بستیاںجیسے سندھ ڈیلٹا، مغربی بنگال، بنگلہ دیش، ہالینڈ اور ساحلی فلوریڈا وغیرہ بمشکل سطحِ آب سے اُوپر رہ پائیں گی۔ یہ تو تمہارے ساتھ ہو گاا ور میرا یہ کہ سورج صاحب سے میرا رشتہ ہمیشہ کے لیے بدل جائے گا۔ میرا خصم میرا باپ ہے وہ۔ اُس نے مجھے پالا پوسا جوان کیا اور ٹوٹ کر چاہا.... تو تم پیدا ہوئے۔ پھر ہم دونوں تمہاری پرورش میں لگ گئے اور تم ہو کہ ہمارے ہی درمیان رخنہ انداز ہو کر کروڑوں برس سے جاری محبت کے عمل کو قطع کئے دیتے ہو۔ میں پھر کہتی ہوں قطبین کی برف پگھلی تو سورج سے میرا رشتہ ہمیشہ کے لیے بدل جائے گا۔ تمہارا کیا ہو گا تم جانو اور تمہارے سرطانی (Carcinogenic)کام.... پڑے جھوجھنا پھر بالائے بنفشی شعاعوں سے اور بھرنا ٹھنڈی آہیں قطبین کی برفوں کے لیے جو کم از کم تمہارے ہوتے ہوئے قطبین کی طرف جھانکیں گی بھی نہیں۔ اور کلی منجارو کی رومان پرور برفیں! دوزخ دہلتی ہے اُن کے ٹھنڈے حسن سے۔ بتاﺅ دلبرداشتہ ہو کر وہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں تو کون فسانہ ساز فسوں گری کرے گا اُن کے آگے بیٹھ کر۔ اور کیا ارنیسٹ ہیمنگوے روئے گا نہےں ’سنوز آف کلی منجارو‘ کو یاد کر کے؟ پُتر آدم کیوں کر رہے ہو تم ایسا۔ کیا بگاڑا ہے قطبی ریچھ اور پینگوئن نے تمہارا۔ جانکنی میں ہےں دونوں۔ اور سندھ کی نابینا ڈولفِن۔ سندھو کی جل پری ہے وہ اور کسی بھی پری سے زیادہ حسین، سندھن سوانی ایسی۔ کشتیوں میں رہنے والے کتنے ہی ’موہنا‘ مچھیرے اُسے دیکھ کر خود پر قابو نہےں رکھ سکتے اور پکڑ کر ذبح کرنے سے پہلے پلید کر دیتے ہےں اُسے اور پھر کہتے ہےں کہ وہ تو جادوگرنی ہے۔ وہ میمل۔ اپنے بچوں کو دودھ پلانے والی وہ معصوم مچھلی، تمہارے لچھن دیکھ کر جس نے خود کو اندھا کر لیا اور بھلا دی گئی اور ’بھُلاں‘ کے نام سے موسوم ہوئی جس کے سندھو پر بند باندھ کر تم نے اُس کی راہیں مسدود کر دیں۔ اب اپنا سارا حسن، ساری جادوگری اور آبی دلفریبی لے کر ہمےشہ ہمیشہ کے لیے جانے کو ہے وہ سندھو سے۔ اور یاد رکھو سندھو کبھی اُس ’بھلاں‘ کو بھول نہ پائے گا۔ اتنا روئے گا اتنا روئے گا کہ اپنا وہ حال کر لے گا جو آج راوی کا ہے.... او ریاد رکھو کبھی راوی تک تھیں بھلاں کی آب راہےں اور اے سندھو تہذیب کے آدم سوچو ذرا! سندھو کے بغیر تم کیا ہو۔ کب سے تم ایک گمشدہ دریا کو رو رہے ہو، سندھو کو تو رونے والا بھی کوئی نہ ہو گا۔ ایک اندھی کا شراپ.... بد دعا۔ اور پھر سندھو کے دوست دریا یا نگتسی کی رہنے والی.... بھلاں کی بہن....’بے جی‘۔ کیسا بھلا نام ہے۔ تمہاری طرف تو ’اماں‘ کی جگہ بھی ، ’بے جی‘ بولتے ہےں، مگر جہاں کی وہ ہے وہاں بیجی کا مطلب ہے سفید جھنڈی۔ لاکھوں برس یا نگتسی کے پانیوں میں سے آدم کی ہتیا چاری دیکھتی بے جی جلتی رہی اور درد مندی سے اُسے اپنے سفید خیرہ کن حسن کی جھنڈی دکھاتی رہی کہ آﺅ امن کی طرف آﺅ فلاح کی طرف۔ مگر اُس کی بات تو کیا سنتے، تم زیادہ اذیت پسندی سے اُس کی امن پسندی کو سبق سکھانے لگے۔ جال، کانٹے اور لاسہ (Bait)کے ساتھ ساتھ تم اُسے بجلی کے جھٹکے دے کر اور بارود سے بے بس کرکے پکڑنے لگے اور جو بچ رہی اُس پر کچھ ایسے بند باندھے کہ جینا اجیرن ہو گیا بھلاں کی اُس بہن کا، اور یاد دلاﺅں تمہےں آدم، ’بھلاں‘ ایک اکیلی میمل نہےں جو وجود کی یاد سے محو ہو جانے کو ہے۔ ہر چار میں سے ایک ممالیہ، ہر آٹھ میں سے ایک پرندہ اور ہر تین میں سے ایک خشکابی (Amphibian)جانور اور تمام پودوں میں سے قریب قریب تین چوتھائی تمہاری چیرہ دستی سے معدومیت کے خطرہ سے دوچار ہےں۔ فطرت کے زمانوں کا ایک نشان ایک آیت تھی ’بے جی‘۔ جب آخری بار وہ یانگتسی سے اُچھلی تب بھی اُس کے سفید خیرہ کن حسن پر خدا نے ایک آیت لکھ بھیجی تھی۔ آدم! تمہاری معدومیت کی آیت۔ کیونکہ آدم! پانی پہلے مچھلیوں اور دوسری آبی حیات کے ہوتے ہےں پھر تمہارے.... جب مچھلیاں مونگے صدف جھینگے مر جان اور آبی حیات کے دوسرے مظاہر معدوم ہونے لگےں تو سمندر، دریا اور جھیلیں کھنڈر ہو جاتی ہےں۔ دریا اور جھیلیں خشک اور سمندر آدم سے پیچھے ہٹنے لگتے ہےں اور جن ساحلوں اور کوسٹل لائینز پر کبھی زندگی کی ہما ہمی کا میلہ لگا رہتا تھا ویران ہونے لگتے ہےں۔ تب صحرا شہروں پر بڑھ آتے ہےں کیونکہ معدوم ہوتی مچھلیاں صدف اور مونگے آدم کے شہروں کو شراپ دیتے ہےں۔ کہےں بُھلاں کے شراپ سے سندھو کا پانی کم ہونے لگتا ہے تو کہےں کسی اور جل جیو کے شراپ سے شہر صحرا ہونے لگتے ہےں۔ دیکھو جہاں سے ”بے جی“ رخصت ہوئی ہے وہاں کیسے صحرا ریت کے تاتاری لشکر کی طرح بڑھا آتا ہے۔ اپنی ساری ہوشربا ترقی کے باوجود اُس ملک کا ایک تہائی رقبہ صحرا ہو گیا ہے۔ یاد رکھو آدم! تمہاری زندگی کی رگیں پرندوں، مچھلیوں، جنگلوں غرض خشکی و تری کی تمام آبی و نباتاتی حیات کی رگوں میں یوں اُلجھی ہیں کہ انہےں کاٹا تو جا سکتا ہے سلجھایا نہےں جا سکتا اور جب بھی کوئی رگ کٹتی ہے کہےں نہ کہیں کوئی معدوم ہو جاتا ہے۔
میں مانتی ہوں کہ معدومیت فطرت کا ایک حصہ ہے مگر تم نے اسے غیر ضروری طور پر تیز کر دیا ہے۔ کیا کیا سُفنے نہ دیکھے تھے میں نے اور سورج نے تمہارے بارے مگر اُن سپنوں کے آگے جو امّاں فطرت نے دیکھے تھے ہمارے سپنوں کو پھیکے شلجم ہی سمجھو۔ امّاں نے پہلے تو ایک بے حد و کنار پھیلتا پھیلاﺅ بنایا اور اُس میں کبھی نہ تھمنے والی گردشیں رکھ دیں اور گردشوں میں خطوط و خم اور ان خطوط و خم میں تارا منڈل (کہکشائیں) پھیلا دیں، پھر ایک تارا منڈل تمہارے رہنے کے لیے خاص کر دیا۔ اور ایک تارے پر جسے بعد میں تم الفاسنٹاری کہنے لگے فطرت نے تمہارے نام کی تختی جڑی اور رہنما تیر کا رُخ میری طرف کر دیا۔ اور اماں فطرت کے سپنے تمہاری طرح تھوڑی ہوتے ہیں آدم، کہ سچ ہوئے تو ہوئے نہ ہوئے تو نہ ہوئے۔ فطرت کا سپنا اور سچ ساتھ ساتھ چلتے ہےں۔ پھر سپنوں اور سچ کے اس چلاﺅ میں اربوں برس بیت گئے کیونکہ فطرت کوئی خطرہ مول نہ لینا چاہتی تھی۔ تقویمیں اُس کے پاس بہت تھیں.... تمہےں بنانے میں اُس نے انہےں بے دریغ خرچ کیا کہ کہےں ایک آدھ ارب تقویم کی کمی سے تم اُس کی کوکھ سے کچے نہ گر پڑو۔ کوکھ سے نکلو تو احسن ہی نکلو۔ احسنِ تقویم۔ یوں ہر چیز اپنی جگہ پر تھی۔ سوریہ او رمیں ایک دوسرے سے مناسب فاصلے پر۔ چاند بابو اتنے دور کہ جوار بھاٹے اُٹھا کے پانی متھیں اور زندگی کے پہلے پتھریلے آثار ساحلوں پر پھیلائیں۔ مگر ابھی زندگی کو جنم دینے میں اماں فطرت متردّد تھیں کہ شاید زندگی سورج کی بالائے بنفشی بر چھیاں بردشت نہ کر پائے۔ سو وہ اس گھر، اس مٹی پر جسے تم آدم خور کہتے ہو او زون کا چھاتہ تاننے میں لگ گئی۔ اس میں اُسے ایک دو لاکھ نہےں لکھو کھہا برس لگ گئے او رجب اوزون کا یہ چھاتہ تن گیا تب ہی سمندر پیچھے ہٹے، گلیشیئر اپنی جگہ جمے ساحل نمو دار ہوئے، اور جانتے ہو میرے ان ساحلوں پر جب پہلے پہل یک خلوی زندگی نے پہلا سانس لیا تو آفاق در آفاق، پھیلے تارا جھرمٹوں میں اور خلا کے اُن تاریک ویرانوں میں بھی جہاں ابھی پہلے تارے کو ٹمٹمانا تھا یہ پہلا سانس خبر بن کر دوڑ گیا تھا۔ فطرت کی اربوں برس کی بظاہر اندھی کاوش کا کیسا تحیر خیز انجام ہوا تھا۔ اب یوں ہے کہ.... ہاں یک لحظہ اپنے کان اور حواس میرے لیے خاص کرو۔ فطرت کو اوزون چھاتہ تک آنے میں اربوں برس لگے اور محض ساٹھ لاکھ برس پہلے تم دوپاﺅں پر سیدھا کھڑے ہوئے۔ تمہاری معلومہ مصدقہ تہذیبی تاریخ دس ہزار برس سے زیادہ پیچھے نہیں جاتی.... اور غاروں میں بنائی اپنی تصویروں پر اِترانے والے اے آدم! فطرت کے لکھوکھہا برسوں میں تکمیل کو پہنچے عواملِ تخلیق کو تم صرف ایک صدی میں برباد کرنے پر تلے ہو.... او آدم! او آدم! تُلے ہو تو تُلے رہو۔ آنے دو زلزلوں کو، پگھلا دو سارے گلیشیئر۔ اُٹھا دو سمندروں میں سونامی۔ کاٹ ڈالو جنگل، چڑھا لو اپنے شہروں پر صحرا، میرے کہنے پر باز تھوڑی آﺅ گے کیونکہ جیسا کہ میں نے کہا تم نے اپنے اندر خود اتلافی (Self Destruction)کی ایک چنگ ایک چپ (Chip)رکھ لی ہے.... جس کی ایک صورت، جسے دیکھ کر ہنستی ہے فطرت تم پر، آبادی کی بے تحاشا افزائش ہے۔ مجھے بنجر بیکار کر کے میری صورت بگاڑے دےتے ہو٭Desertification ،Land Degradation,٭ او آدم ! ا ور آبادی بڑھائے جاتے ہو او آدم! ! اگلے چالیس پینتالیس برسوں میں مجھے تمہارے قریب قریب دس ارب کا بوجھ اُٹھانا ہو گا۔ اس بوجھ سے میں دب جاﺅں گی۔ گلیشیئر تو پگھل ہی چکے ہوں گے پہاڑوں کی کیلیں بھی کمزور پڑ کر اوپر کو اُبھر آئیں گی اور تب جبکہ تمہاری بد فطرتی دیوانہ وار فطری حیاتیاتی تنوع٭Biodiversity٭ کا تار و پود بکھیرنے میں لگی ہو گی تمہےں اتنی خوراک پیدا کرنے کی ضرورت ہو گی جتنی کہ گزشتہ دس ہزار برس میں کبھی نہ ہوئی تھی۔ او آدم او آدم! اب کہو مجھے اور میری مٹی کو کہ وہ آدم کھاتی ہے۔اچھا بتاﺅ سٹیفن ہاکنگ کو جانتے ہو، گزشتہ برس (جولائی 2006ئ) میرے اُس پُتر، پُتر نہےں سپتر، سپتروں میں سپتر نے، جس کے معذور بدن میں میری جسامت جتنا دماغ ہے، برسوں زمان و مکاں کے اندھے کنوﺅں میں جھانکتے رہنے کے بعد سوال اُٹھایا کہ ایک ایسی دنیا میں جو سیاسی سماجی اور ماحولیاتی انتشار و ابتری کا شکار ہے، نسلِ انسانی کیسے خود کو مزید ایک سو برس تک قائم رکھ پائے گی۔ ٭Sci-Tech World: Dawn: August 12, 2006 ٭
ہاکنگ نے یہ سوال کیا اُٹھایا ایک انٹرنیٹی طوفان اُٹھا دیا۔ کم و بیش پچیس ہزار افراد نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی لیکن سٹیفن نے اپنے جواب سے سب کو حیران اور حیران سے زیادہ مایوس کر دیا۔ اُس کا جواب تھا:مجھے نہےں معلوم جواب کیا ہے، اسی لیے تو سوال پوچھا تھا۔ اپنے اُسی وِڈیو کلپ میں ہاکنگ کہتا ہے:نوعِ انسانی اسی صور ت زندہ رہ سکتی ہے اگر وہ اپنا موجودہ گھر چھوڑ کر خلا میں پھیل جائے اور دوسرے سیاروں میں جا بسے۔ لیکن کم از کم سو برس سے پہلے انسان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ ہو گا۔ تب تک اُمید کی جانی چاہیے کہ جینیاتی انجینئرنگ اُسے زیادہ دانا اور کم جارح بنا دے گی۔“اور سنو تم دونوں! میری ایک آخری بات، ایک بڑے انگریز ادیب ٭Website: yahoo "This World is another planet's hell."___ Aldous Huxley. Answers.نے کہا تھا:یہ دنیا کسی دوسرے سیارے کا دوزخ ہے۔“ میں منت کرتی ہوں تمہاری کہ مجھے واقعی دوزخ بنا کر جب تم کسی اور سیارے پر جا بسو تو از برائے خدا اُسے دوزخ نہ بنانا۔ ایک فقط اپنی نسلی بقا کے لیے آخر تمہےں کتنے دوزخ درکار ہےں؟
یہ آخری الفاظ ابھی ہماری سماعتوں سے ٹکرائے بھی نہ تھے اور اچھی پیاری زمین ہمارے سامنے سے تحلیل ہو کر ہمارے بوجھ خود پہ لے بھی چکی تھی....
جب مجھے ہوش آیا، میں اکیلا تھا۔ میرے سامنے چائے کا پیالہ بھاپ چھوڑ رہا تھا اور بیوی مجھے تشویش سے دیکھ رہی تھی مگر حمید شاید کہاں تھا.... وہ اور اُس کا خیال۔ ضرورت تھی مجھے اس لمحے اُس کی۔ لیکن جہاں بھی تھا میرے سیل فون سگنلز کی پہنچ میں تھا۔ میں واقعی اُس کا شکر گزار تھا۔ اُس کی کتاب نے مجھے فکر انگیز قرات کے کئی دن دئیے تھے اور کتنی کتابیں ہےں جن کے بارے میں یہ بات دل سے کہی جا سکے گی۔
”میرے ساتھ رہنے پر تمہارا اور تمہاری کتاب کا دِلی شکریہ۔“
”تمہارے ساتھ !؟
”جی میرے ساتھ۔ اور ہاں جو کچھ تم نے لکھا ہے اُس کے لیے نالہ گرم اور جو نہےں لکھا اُس کے لیے آہِ سرد۔“ دوسری طرف وہ خاموش ہے جیسا کہ چھ پانچ کے بیچ سب ہوتے ہےں۔ اُسے چھ پانچ میں سے نکالنے کو میں پوچھتا ہوں:
”شاہد بھائی ایمیوزڈ؟“
وہ کہتا ہے: ”بی میوزڈ۔“
2-10-2007
٭....٭

No comments:

Post a Comment